حائضہ بغر احرام میقات کو تجاوز کیا پھر واپس آئی اور احرام باندھا مگر عمرہ کے بعد پھر حیض آگیا تو حکم کیا ہے
سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مقیات (طائف) سے بغیر احرام باندھے آگئی، حالت حیض میں ہونے کی وجہ سے احرام نہیں باندھا، (حیض کا تیسرا دن تھا) حالت حیض ہی میں دوسرے دن پھر طائف گئے اور پھر غسل کرکے احرام باندھا لیا اور دو دن بعد عمرہ (طواف، سعی، قصر) کرلیا؛ کیوں کہ ایک دن سے زاائد کا وقفہ ہوا، جس میں خون نہیں آیا تھا اور اس کے حیض کی عادت تین چار دن کی ہے۔ عمرہ کے بعد، اگلے دن پھر خون آگیا، جس کے بارے میں معلوم نہیں کہ حیض کا ہے یا استحاضہ کا۔
مذکورہ بالا صورت میں اس کا عمرہ ہوا یا نہیں؟ کیا اس پر دم واجب ہوگا؟ اگر دم واجب ہوا؛ تو اب کیا کرے؛ کیوں کہ وہ اب انڈیا آگیے ہیں۔
المستفتی: ہاشم بھائی، ممبئی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب مذکورہ صورت میں عورت کا عمرہ ادا ہوگیا، لیکن عورت نے اگر حیض کی حالت میں طواف کیا ہے؛ تو اس عورت پر دم لازم ہے، ورنہ نہیں۔
بہار شریعت میں ہے: ’’فرض کے سوا کوئی اور طواف کل یا اکثر جنابت میں کیا تو دم دے اور بے وضو کیا؛ تو صدقہ اور تین پھیرے یا اس سے کم جنابت میں کیے؛ تو ہر پھیرے کے بدلے ایک صدقہ، پھر اگر مکہ معظمہ میں ہے؛ تو سب صورتوں میں اعادہ کرلے، کفارہ ساقط ہوجائےگا‘‘۔ (بہار شریعت، صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ، جرم اور ان کے کفارے کا بیان، ج۱ح۶ص۱۱۷۶، ط: قادری کتاب گھر، بریلی شریف)
فتاوی عالم گیری میں ہے: ’’وَلَوْ طَافَ طَوَافَ الصَّدْرِ كُلَّهُ جُنُبًا أَوْ أَكْثَرَهُ يَجِبُ عَلَيْهِ الدَّمُ وَتُجْزِئُهُ الشَّاةُ إنْ كَانَ رَجَعَ إلَى أَهْلِهِ، وَإِنْ كَانَ بِمَكَّةَ وَأَعَادَهُ سَقَطَ وَلَا يَجِبُ عَلَيْهِ لِلتَّأْخِيرِ شَيْءٌ بِالِاتِّفَاقِ وَلَوْ طَافَ أَقَلَّهُ جُنُبًا إنْ رَجَعَ إلَى أَهْلِهِ تَجِبُ عَلَيْهِ الصَّدَقَةُ لِكُلِّ شَوْطٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ الْحِنْطَةِ، وَإِنْ كَانَ بِمَكَّةَ وَأَعَادَهُ سَقَطَ بِالْإِجْمَاعِ كَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ فِي بَابِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ‘‘۔ (کتاب المناسک، الباب الثامن فی الجنایات، الفصل الخامس فی الطواف الخ، ج۱ص۲۴۶، ط: دار الفکر، بیروت)
نیز اسی میں ہے: ’’إذَا طَافَ لِلْعُمْرَةِ مُحْدِثًا أَوْ جُنُبًا فَمَا دَامَ بِمَكَّةَ يُعِيدُ الطَّوَافَ فَإِنْ رَجَعَ إلَى أَهْلِهِ وَلَمْ يُعِدْ فَفِي الْمُحْدِثِ تَلْزَمُهُ الشَّاةُ وَفِي الْجُنُبِ تَكْفِيهِ الشَّاةُ اسْتِحْسَانًا هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ‘‘۔ (أیضا، ص۲۴۷)
اگر عورت کو اس بار، دس دن سے زائد خون آیا؛ تو عورت کی عادت اگر تین یا چار دن ہے؛ تو وہی تین دن یا چار دن حیض اور باقی دن استحاضہ کے ہیں۔ اور اگر کوئی عادت متعین نہ ہو بلکہ کبھی تین دن اور کبھی چار دن خون آتا ہے؛ تو پچھلی بار جتنے دن خون آیا تھا، اتنے ہی دن حیض اور باقی دن استحاضہ کے مانے جائیں گےاور اگر اس بار دس دن یا اس سے کم خون آیا؛ تو سارے دن حیض ہی کے مانے جائیں گے۔
بہار شریعت میں ہے: ’’اور اگر پہلے اسے حیض آچکے ہیں اور عادت دس دن سے کم کی تھی؛ تو عادت سے جتنا زیادہ ہو، استحاضہ ہے۔ اسے یوں سمجھو کہ اس کو پانچ دن کی عادت تھی، اب آیا دس دن؛ تو کل حیض ہے اور بارہ دن آیا؛ تو پانچ دن حیض کے، باقی سات دن استحاضہ کے اور ایک حالت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی چار دن، کبھی پانچ دن؛ تو پچھلی بار جتنے دن تھے، وہی اب بھی حیض کے ہیں، باقی استحاضہ‘‘۔ (بہار شریعت، صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ، حیض کا بیان، ج۱ح۲ص۳۷۲، ط: قادری کتاب گھر، بریلی شریف)
فتاوی عالم گیری میں ہے: ’’فَإِنْ لَمْ يُجَاوِزْ الْعَشَرَةَ فَالطُّهْرُ وَالدَّمُ كِلَاهُمَا حَيْضٌ سَوَاءٌ كَانَتْ مُبْتَدَأَةً أَوْ مُعْتَادَةً وَإِنْ جَاوَزَ الْعَشَرَةَ فَفِي الْمُبْتَدَأَةِ حَيْضُهَا عَشَرَةُ أَيَّامٍ وَفِي الْمُعْتَادَةِ مَعْرُوفَتُهَا فِي الْحَيْضِ حَيْضٌ وَالطُّهْرُ طُهْرٌ. هَكَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الطھارۃ، الباب السادس فی الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول فی الحیض، ج۱ص۳۷، ط: دار الفکر، بیروت)
اب مذکورہ بالا وضاحت کے پیش نظر، اگر اس بار، سوال میں مذکورہ عورت کو دس دن سے زاائد خون آیا تھا اور عورت کی تین دن کی عادت تھی یا عادت متعین نہیں تھی اور پچھلی بار صرف تین ہی دن خون آیا تھا؛ تو طہارت کی حالت میں طواف کرنے کی وجہ سے اس عورت پر دم لازم نہیں اور اگر چار دن کی عادت تھی یا کوئی متعین عادت نہ تھی اور اسے پچھلی بار چار دن خون آیا تھا؛ تو ناپاکی کی حالت میں طواف کرنے کی وجہ سے اس عورت پر دم لازم ہے۔ اور اگر اس بار دس دن یا اس سے کم خون آیا تھا؛ تو ناپاکی کی حالت میں طواف کرنے کی وجہ سے اس عورت پر دم لازم ہے۔
حیض کی حالت میں طواف کرنے کی صورت میں، عورت پر ضروری ہے کہ سب سے پہلے توبہ کرے اور اگرچہ وہ اب بھارت آگئی ہے، اس پر لازم ہے کہ کسی معتمد سے بات کرکے، حرم میں دم کی قربانی کرائے، اگر حرم سے باہر، بھارت یا کسی دوسری جگہ کراےگی؛ تو دم کی قربانی، ذمہ سے ساقط نہیں ہوگی۔
بہار شریعت میں ہے: ’’کفارہ کی قربانی یا قارن و متمتع کے شکرانہ کی، غیر حرم میں نہیں ہوسکتی، غیر حرم میں کی، ادا نہ ہوئی ‘‘۔ (بہار شریعت، صدر الشریعۃ علیہ الرحمۃ، جرم اور ان کے کفارے کا بیان، ج۱ح۶ص۱۱۶۲، ط: قادری کتاب گھر، بریلی شریف)
فتاوی عالم گیری میں ہے: ’’فِي كُلِّ مَوْضِعٍ إذَا فَعَلَ مُخْتَارًا يَلْزَمُهُ الدَّمُ كَاللُّبْسِ وَالْحَلْقِ وَالتَّطَيُّبِ…….وَإِنْ ذَبَحَ فِي غَيْرِ الْحَرَمِ لَا يَجُوزُ عَنْ الذَّبْحِ‘‘۔ (کتاب المناسک، الباب الثامن فی الجنایات، الفصل الثالث فی حلق الشعر الخ، ج۱ص۲۴۴، ط: دار الفکر، بیروت) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۸؍شعبان المعظم ۱۴۴۵ھ
Lorem Ipsum