جا دفع ہوجا وغیرہ سے طلاق کا حکم

کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام شرع اس مسئلہ میں کہ:

ایک شخص نے دوران جھگڑا اپنی بیوی کو کہا کہ: ’جا دفعہ ہو‘ ’تو میری طرف سے فارغ ہے‘ تجھے ’پہلی بھی ہے اور دوسری بھی‘۔ اس موقع پر موجود دوسرے افراد نے اس شخص کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ اس اثنا میں اس کی بیوی اس کو برا بھلا کہتی رہی، جس پر وہ مزید طیش میں آیا اور ہاتھ کے ہٹتے ہی کہنے لگا کہ ’تیسری‘ بھی ہے۔ اس کے بعد اس کی بیوی میکے چلی گئی۔ بعد میں فریقین نے علما سے رابطہ کیا جس پر کچھ علما نے کہا کہ چوں کہ ’جا دفع ہو‘ کہنے سے طلاق بائن واقع ہوگئی تھی۔ اس لیے اس کا باقی کلام لغو گیا ہے اور ایک طلاق واقع ہوئی۔ اور اب بغیر نئے نکاح یہ ساتھ نہیں نہیں رہ سکتے۔ جس پر ان کا دوبارہ نکاح منعقد ہوا۔ اب خاندان کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے نکاح اور اکٹھے رہنے کے جواز کے لیے ہمیں تحریری فتوی چاہیے۔

اس ساری صورت حال میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں کہ طلاق بائن واقع ہوئی تھی کہ نہیں۔ اور اس پوری گفتگو میں لفظ ’طلاق‘ استعمال ہی نہیں ہوا، اپنے جواب سے آگاہ فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، رب کریم آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے، آمین۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب اگر اس شخص نے لفظ ’جا‘ سے طلاق کی نیت کی تھی؛ تو ایک طلاق بائن پڑگئی اور اب باقی جملے ’دفعہ ہو‘ اور ’تو میری طرف سے فارغ ہے‘ سے اگر محض طلاق کی نیت کی یا کچھ بھی نیت نہیں کی؛ تو ان دو جملوں سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:: ’’الطلاق یلحق الطلاق إلا کنایة بائنة بائنا و نظمته: کل طلاق لاحق للکائن ‒ إلا کنایة  بائن لبائن‘‘۔ (جد الممتار، مجدد دین و ملت، باب الکنایات، ج۵ص۱۰۱، ط: مکتبۃ المدینۃ، دعوت اسلامی)

البتہ اگر ’دفعہ ہو‘ سے پہلی کے علاوہ دوسری طلاق دینے کا ارادہ کیا؛ تو دوسری طلاق بائن واقع ہوجائے گی اور ’تو میری طرف سے فارغ ہے‘ سے ان دونوں کے علاوہ تیسری طلاق کا ارادہ کیا؛ تو تیسری بھی طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔

نیز فرماتے ہیں: ’’لا یرتاب أحد أن الکنایات لا بد لھا من نیة، لکن ھھنا ثلاثة أشیاء: نیة الطلاق علی الإطلاق و ھذا ھو الذي لا بد منه في الکنایات، و نیة التاکید و نیة الاستئناف بأن یرید و یقصد إیقاع طلاق جدید غیر الأول۔

و العلامة البحر لا یقول باشتراط التأکید حتی یرد علیه أنھم لم یشترطوا ذلك بل إنما یقول باشتراط عدم نیة الاستیناف؛ لأنه بعد نیة الاستئناف کقوله: أبنتك بأخری؛ فإن الوقوع إنما ھو بـ (أبنتك) لا بـ (أخری) و إنما ھو معین لنیة الاستئناف عند الناس، فلم لا تکفیه نیتة فیما بینه و بین ربه! و کلاھم غیر صریح في أنه لا یقبل منه الاستئناف أصلا و إن نوی و یحمل علی التأکید جبرا علیه و کرھا، و ھل ھو إلا حجر له عن تصرف قصدہ قصدا خاصا مع کونه أھلا و المرأۃ محلا و اللفظ صالحا و ھو المشدد علی نفسه فلم لا یقبل! فلیتأمل‘‘۔ (جد الممتار، محدث بریلی، باب الکنایات، ج۵ص۱۰۶)

مزید فرماتے ہیں: ’’و الحاصل أن الحمل علی الإخبار إما أن یوافق نیة القائل أولا، فإن وافق بأن کان القائل أیضا أراد به الإخبار فلا خفاء في کونه إخبارا و إلا فإما أن یکون الواقع عدم نیة الوفاق بأن نوی به الطلاق غیر ناو للإخبار أو نیة عدم الوفاق بأن نوی به شیئا مضادا لجعله إخبارا ففي الأول یجعل إخبارا لإمکانه فإن اللفظ صالح و اللافظ لم یقصد ما یضادہ، ھذا معنی قولھم: (لا یقع و إن نوی) و في الثاني لما نوی المضاد، و قصد انتفاء الإخبار قصدا مستقلا، فحینئذ إن نظرتم إلی مجرد صلوح اللفظ و لم تقبلوا نیته أصلا، و إن نوی خلاف ما أنتم تحملون کلامه علیه وجب إلغاء نیة التغلیظ أیضا، و إن کا ن حملکم مقتصرا علی ما إذا لم یشدد علی نفسه بنیة مضادۃ للحمل، و نافیة له نفیا صریحا وجب قبول نیة بائنة أخری، فاتجه بحث البحر‘‘۔ (جد الممتار، محدث بریلی، باب الکنایات، ج۵ص۱۰۹‒۱۱۰)

نیز یہ جملے ’’تجھے پہلی بھی ہے اور دوسری بھی‘‘ اور ’’تیسری بھی ہے‘‘یہ سابق جملوں کے بارے میں خبر دینے یا اس تاکید  کی صلاحیت نہیں رکھتے؛ لہذا  اگر ان جملوں سے طلاق کی نیت کی ہے؛ تو اگر ’جا‘ سے طلاق کی نیت کرچکا تھا؛ تو اب ان میں سے ایک لغو ہوجائے گی اور باقی دو واقع ہوکر تین ہوجائیں گی اور  اگر ’دفعہ ہو‘ سے پہلی کے علاوہ دوسری طلاق اور ’تو میری طرف سے فارغ ہے‘ سے ان دونوں یعنی ’جا‘ اور ’دفعہ ہو‘ کے علاوہ، تیسری طلاق کا ارادہ کیا تھا؛ تو بعد کے یہ تینوں جملے لغو ہوجائیں گے؛ کیوں کہ تینوں طلاقیں پڑ چکیں، اب مزید طلاق واقع ہونا ممکن نہیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَاحِدَةً أَوْ ثِنْتَيْنِ فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ أُمُّ امْرَأَتِهِ فَقَالَتْ طَلَّقْتهَا وَ لَمْ تَحْفَظْ حَقَّ أَبِيهَا وَعَاتَبَتْهُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ الزَّوْجُ هَذِهِ ثَانِيَةٌ أَوْ قَالَ الزَّوْجُ هَذِهِ ثَالِثَةٌ تَقَعُ أُخْرَى وَلَوْ عَاتَبَتْهُ وَ لَمْ تَذْكُرْ الطَّلَاقَ فَقَالَ الزَّوْجُ هَذِهِ الْمَقَالَةُ لَا تَقَعُ الزِّيَادَةُ إلَّا بِالنِّيَّةِ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ‘‘۔ (الفتاوی الھندیۃ، الفصل الأول فی الطلاق الصریح، ج۱ص۳۵۲، ط: دار الفکر، بیروت)

اسی میں ہے: ’’وَلَوْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ مِنِّي ثَلَاثًا إنْ نَوَى الطَّلَاقَ طَلُقَتْ وَإِنْ قَالَ لَمْ أَنْوِ الطَّلَاقَ لَمْ يُصَدَّقْ إنْ كَانَ فِي حَالِ مُذَاكَرَةِ الطَّلَاقِ‘‘۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطلاق، الفصل الأول فی الطلاق الصریح، ج۱ص۳۵۷، ط: دار الفکر، بیروت) و اللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲؍جمادی الأولی ۱۴۴۲ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.