‘جانشین فقیہ ملت‘ پر الزام تراشی کے مدعی ’خالد‘خود الزام تراشی کے کٹ گھرے میں (پہلی قسط)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کوئی خالد رضوی امجدی صاحب ہیں، جنھوں نے صاحبزادہ و جانشین فقیہ ملت، خلیفہ رفیق ملت، حافظ و قاری حضرت مولانا مفتی ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری صاحب قبلہ کی ایک فیس بک کی پوسٹ کو لے کر، بڑے جوشیلے انداز میں احمق وغیرہ جیسی نوازشات کی برسات کی ہے، ان پر الزام تراشی کا دعوی بھی کیا ہے، مگر افسوس کہ خود جانشین فقیہ ملت حضرت ازہری صاحب حفظہ اللہ پر بے جا الزام تراشی کے شکار ہوگیے۔ بہر کیف میں خالد صاحب کی طرح ان پر احمق وغیرہ جیسی نوازشات تو نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ یہ اہل علم کی شان نہیں اور حضرت ازہری صاحب حفظہ اللہ پر، ان کی الزام تراشی بھی، جواب دیے جانے کے قابل نہیں تھی؛ اس لیے ان کا جواب دینے کا ارادہ نہیں تھا، مگر چوں کہ سادہ لوح لوگ، ان کی بے بنیاد تحریر کے جھانسے میں آکر، غلط فہمی کا شکار ہوجانے کا قوی امکان ہے؛ اس لیے انہیں سادہ لوح لوگوں کو غلط فہمی سے محفوظ رکھنے کے لیے، چند باتیں رقم کی جارہی ہیں، امید ہے کہ قارئین انصاف سے کام لیں گے۔

قارئین کرام! پہلے ازہری صاحب کی پوسٹ ملاحظہ کرلیں: ’’دور حاضر کے لحاظ سے بھارت میں بحیثیت فقیہ و مفتی، فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ و فضلہ و کرمہ سے زیادہ، کوئی قابل اعتبار ہے ہی نہیں اور بر سبیل تنزل، اگر کوئی صرف بعض مسائل میں خطا کرنے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں رہ جاتا، تو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ سے لے کر، اس انانیت کے زمانہ تک، شاید ہی کسی کو قابل اعتبار، فقیہ و مفتی مانا جائے، کیوں کہ بعض مسائل میں تقریبا ہر  فقیہ و مفتی، بعض فقیہ و مفتی کے نزدیک خاطی ہے‘‘۔

اس پوسٹ کا مطلب ظاہر ہے، مگر کچھ لوگ اپنی عادت کے مطابق، ہیرا پھیری کرنے کے چکر میں ہیں؛ اس لیے آئیے اس پوسٹ کا مزید، واضح مطلب خود ازہری صاحب کی فیس بک کی ایک پوسٹ پر کمینٹ سے سمجھتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
’’اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ میرے نزدیک فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ سے زیادہ، میدان فقہ میں کوئی معتبر نہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے سوا کوئی معتبر ہی نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ فقیہ اعظم زید مجدہ زیادہ معتبر ہیں اور ان کے ساتھ دیگر لوک بھی معتبر ہیں، مگر ان سے کم ہیں‌۔

اور بعض مسائل کی وجہ سے اگر کوئی غیر معتبر ہوجائے؛ تو شاید ہی کوئی معتبر بچے اور وہ (اگر کوئی صرف بعض مسائل میں خطا کرنے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں رہ جاتا) نادرست؛ تو نتیجہ (تو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ سے لے کر، اس انانیت کے زمانہ تک، شاید ہی کسی کو قابل اعتبار، فقیہ و مفتی مانا جائے) بھی درست نہیں؛ لہذا علامہ صاحب قبلہ کا مفتی صاحب قبلہ کو غیر معتبر کہنا درست نہیں۔ اور میں اس سے رجوع نہیں کروں گا؛ کیوں کہ اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں”۔

اس پوسٹ میں ازہری صاحب  نے صرف دو باتیں کی ہیں: (۱) ایک یہ کہ حضرت کے نزدیک فقیہ اعظم، سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی زید مجدہ، سب سے زیادہ معتبر ہیں۔ (۲) حضرت محدث کبیر صاحب قبلہ کا مفتی صاحب قبلہ کو غیر معتبر کہنا درست نہیں۔ (جیسا کہ علامہ صاحب نے ایک آڈیو میں کہا)۔ 

اس پوسٹ کا مطلب تو واضح ہے مگر خالد صاحب کی الزام تراشی اور کردار کشی کا برا ہو؛ جس کی وجہ سے پوسٹ کا مطلب، کچھ کا کچھ نکالا گیا، خالد صاحب لکھتے ہیں: ’’مولانا ازہار کی یہ  نہایت ہی احمقانہ اور جاہلانہ حرکت ہے کہ انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خطاے اجتہادی کے سامنے مفتی نظام الدین صاحب یا آج کے مفتیان کرام کو لا کر کھڑا کر دیا ہے یہ نہایت ہی جرات کی بات ہے کوئی صاحب علم شخص اس طرح کی بے تکی بات ہرگز نہیں کر سکتا- اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولانا اظہار (ازہار) صاحب بلفظ دیگر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علامہ صاحب نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت سارے ائمہ کو غیر معتبر قرار دے دیا‘‘۔ 

ایک جگہ مزید کرم فرمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”مولانا ازہار نے اپنے اس پوسٹ کے ذریعے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت دیگر ائمہ کرام پر سخت طعن و تشنیع کی ہے اور ان پر جھوٹا الزام رکھا ہے”۔
قارئین کرام! دیکھیں کہ آں جناب نے الزام تراشی کے چکر میں، حضرت ازہری صاحب کی صاف ستھری بات کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا!!

پہلی بات: ازہری صاحب نے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی خطاء اجتہادی کے سامنے، سراج الفقہاء زید مجدہ اور آج کے فقہاے کرام کو کھڑا کیا ہی نہیں ہے بلکہ اپنی پوسٹ سے فقط یہ بتایا ہے کہ اگر مجتہد اجتہاد کا حق ادا کرنے کے بعد خطا کرے یا پھر کوئی محقق، تحقیق کا حق پورا کرنے کے بعد غلطی کر جائے؛ تو اس کی شخصیت مجروح نہیں ہوتی، اس معاملہ میں، مجتہد اور ہر دور کے تحقیق کا حق ادا کرنے والے محقق کا حکم یکساں ہے اور اس کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں، و الحق أحق أن یتبع۔ اس میں امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ اور دیگر ائمہ کرام پر طعن و تشنیع کہاں سے ہوگئی؟! التزام تراشی اور بہتان باندھنے کی بھی حد ہوتی ہے؟! مگر شاید خالد صاحب کے یہاں کوئی حد نہیں۔ خیر بس اتنی سی بات تھی، مگر تل کو تاڑ کیسے بنایا جاتا ہے؛ تو اس کے لیے میرے خیال سے خالد صاحب سے رابطہ کرنا چاہیے۔ و لاحول و لاقوة إلا بالله العلي العظيم.

دوسری بات: ازہری صاحب نے یہ بھی کہنے کی کوشش نہیں کی ہے کہ: ”علامہ صاحب نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت سارے ائمہ کو غیر معتبر قرار دے دیا”۔ و الله المستعان على ما تصفون. ہاں ازہری صاحب کا یہ بتانا ضرور مقصود ہے کہ علامہ صاحب، فقیہ اعظم زید مجدہ کو غیر معتبر قرار دینے میں غلو کے شکار ہیں جیسا کہ ازہری صاحب کی پوسٹ اور وضاحت سے بالکل ظاہر و باہر ہے مگر خالد صاحب جیسے متعصب، متعنت و متشدد کا شاید کوئی علاج نہیں۔

خالد صاحب ازہری صاحب پر حملہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں: ”بلکہ مولانا ازہار کی پوسٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں ابھی تک اردو سمجھنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے”۔

اس بدیہ البطلان دعوی کے رد کی ضرورت نہیں، البتہ اس موقع پر ازہری صاحب کی اردو بلکہ عربی میں خدمات کی طرف اشارہ ضروری ہے، خالد صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ صاحبزادہ و جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ، صرف نسب کے اعتبار سے فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے لڑکے نہیں بلکہ ان کے علوم کے روحانی و حقیقی وارث بھی ہیں، آپ نے جامعہ ازہر شریف، مصر سے آنے کے بعد، اپنی نو سالہ زندگی میں اب تک دو درجن سے زائد، اردو میں کتابیں تصنیف، عربی و اردو میں ترجمہ و تحقیق و تصحیح فرمائیں ہیں اور ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تحقیق و علمی اور اصلاحی مقالات، قرطاس و قلم کی رونق بنے ہوئے ہیں، ہزاروں فتاوی، تحریر و تصحیح کی شکل میں لوگوں کے لیے رشد و ہدایت کی کرنیں بکھیر رہے ہیں اور سیکڑوں اصلاحی بیانات، لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں، ہند و پاک و بنگلہ دیش بلکہ بعض عرب ممالک میں بھی آپ کی اردو سے عربی کتابوں کے ترجمہ کی وجہ سے ایک عمدہ پہچان بنی ہوئی ہے، مگر خالد صاحب جیسے لوگوں کو شاید بات سمجھ میں نہیں آئےگی، ظاہر سی بات ہے جو علمی بات کرنے کے بجائے، کردار کشی پر آمادہ ہو، اسے یہ سب باتیں کیوں کر سمجھ میں آسکتی ہیں؟!

جانشین فقیہ ملت اور احتیاط:

خالد صاحب مزید لکھتے ہیں: ’’مولانا ازہار کو خود سوچنا چاہیے کہ ان کے والد گرامی علیہ الرحمۃ دینی مسائل ہوں یا معاملات ہوں، ان سب میں کس قدر محتاط تھے؟  کیا آپ کو اس کا کچھ خیال ہے؟؟؟

اگر مولانا ازہار حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے صاحبزادے نہ ہوتے تو بہت سخت لب و لہجہ استعمال کرنے کی ضرورت تھی جو انہوں نے اس طرح کی شنیع حرکت کی ہے‘‘۔

خالد صاحب، فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کی نسبت کا سہارا نہ لیں؛ ہاں علم دین کا سہارا لے سکتے ہیں؛ تو لے لیجیے لیکن شاید آپ سے یہ نہ ہو پائے گا؛ اس لیے جو بکنا ہو بک دیں، اب صرف بازارو گالی باقی ہے، یہ خواہش بھی آپ پوری کر لیجیے اور خوف نہ کھائیے؛ کیوں کہ آپ کو سب و شتم نہیں کیا جائے گا!

اور رہی بات احتیاط کی؛ تو حضرت فقیہ ملت علیہ الرحمۃ ہی کی طرح، جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ بھی بہت ہی متحمل، صابر اور اصولی ہونے کے ساتھ، محتاط بھی ہیں، اگر آپ کی شخصیت محتاط نہیں ہوتی بلکہ آپ کی طرح کردار کشی کرنے والی ہوتی؛ تو اب تک حضرت محدث کبیر صاحب قبلہ کی جانب سے مولانا ابو یوسف صاحب کے سوا، عام ازہریوں کو ارتداد، تضلیل اور ڈھل مل یقین کے دائرے میں رکھنے کی وجہ سے، علامہ صاحب پر فتوی لگا چکے ہوتے، مگر چوں کہ حضرت ابھی با حیات ہیں؛ اس لیے ان کی طرف سے ان کے قول کی توجیہ کے خواہاں ہیں کہ شاید کوئی ایسی توجیہ ہو، جس سے وہ بچ جائیں۔ آنے والی تقریر کا حصہ، پھٹی آنکھوں سے دیکھ کر، پڑھیں اور حضرت محدث کبیر صاحب قبلہ سے مناسب جواب حاصل کریں؛ تاکہ بے چین اور خون کے آنسو بہانے والے ازہری اور تمام سنی مسلمانوں کے دلوں کو سکون و اطمینان ملے:
”اور الحمد للہ ازہر سے جتنے واپس آتے ہیں، ان میں سے کچھ تو گمراہ ہوگئے ہیں، کچھ تو ارتداد کے درجے تک پہونچ گئے اور کچھ وہ ہیں جو ڈھل مل یقین ہیں، اللہ تعالی نے بچایا ہے ان کو اور یہ صرف فیضان ہے حضرت صدر الشریعہ کا جو فیضان، صدر الشریعہ پر اعلی حضرت کا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔

اور مزید سنیں اگر جانشین فقیہ ملت حفظہ اللہ، محتاط نہیں ہوتے؛ تو حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کی کتاب بہار شریعت کی ایک عبارت، جو فقہاے کرام کی صریح عبارت سے ٹکرا رہی تھی، ان کے درمیان توجیہ و تطبیق نہ دیتے بلکہ سیدھے صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کو خاطی کہ کر نکل جاتے، مگر اصول و احتیاط کے پیش نظر ہی آپ نے توجیہ و تطبیق دینے کی پوری کوشش فرمائی، جس کو عام طور سے علماے کرام نے سراہا، نیز فتاوی لکھنے اور تصحیح فتاوی کے درمیان، آپ کی اس طرح کی کاوش بارہا دیکھنے کو ملتی ہے، جو آپ کے اصولی و محطاط اور حضرت فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے نقش قدم پر چلنے کی دلیل بین ہے، مگر انکھیارا جب بے بصارت ہوجائے؛ تو اسے کوئی نہیں دکھا سکتا، ہاں اللہ تعالی ہدایت دے؛ تو ضرور توفیق مل جائے گی۔

بہر حال ازہری صاحب حفظہ اللہ کے بارے میں خالد صاحب کی یہ سب بے تکی باتیں، الزام تراشیاں، محض ازہری صاحب کی کردار کشی کی ناپاک کوشش کا شاخسانہ ہے، جس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے؛ کیوں کہ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہے ذلت و رسوائی سے دو چار کرتا ہے، فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے صاحب زادگان میں ازہری صاحب کو اللہ تعالی کے فضل و کرم اور آپ کی تصنیفی، تحقیقی و تبلیغی، انتھک کوشش کے سبب، اتنی کم عمری اور اتنے کم وقت میں، ملک و بیرون ملک میں جو عزت و شوکت ملی ہے، یہ دور حاضر کے نوجوانوں میں انہیں کا حصہ ہے۔ و من یتوکل علی الله فهو حسبه.

اور خالد صاحب نے جو یہ بے تکا دعوی کیا ہے کہ علامہ صاحب نے فقیہ اعظم زید مجدہ کو اس لیے غیر معتبر کہا کہ انہوں نے حق واضح ہونے کے باوجود حق قبول نہیں کیا اور اس پر تار عنکبوت جیسی عمارت قائم کرکے، فقیہ اعظم زید مجدہ پر بہتان باندھنے کی لایعنی کوشش کی ہے، قارئین اس کا مسکت جواب اور رد ان شاء االلہ، وسری قسط میں ملاحظہ کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔

محمد غضنفر امجدی۔
یکے از محبین فقیہ ملت علیہ الرحمۃ
٢٨/ جمادی الآخرة ٤٥ھ۔ ١١/جنوری ٢٠٢٤ء

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.