بیوی، ایک لڑکا اور سات لڑکیاں ہیں، وراثت کیسے تقسیم ہوگی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ:
زید کے آٹھ بچے ہیں، ایک لڑکا اور سات لڑکیاں ہیں، جن میں لڑکا آٹھویں نمبر پر ہے اور ایک بیوی ہے جو ان بچوں کی سگی ماں ہے۔
(۱)زید کے انتقال کے بعد اس کے وارثین میں ورثہ کیسے تقسیم ہو اور کس کا حصہ کتنا ہونا چاہیے؟
(۲) اور ایک وارث، دوسرے وارث کاحق تلف کرے تو اس پر کیا حکم نافذ ہوگا؟
(۳) اور اگر زید نے اپنی حیات میں اپنی زمین و جائداد کا وصیت نامہ اپنی دو بیٹیوں کے لیے تیار کیا تھا یا ان کو زبانی وصیت کی تھی۔ تو اب اس وصیت نامہ یا زبانی وصیت کی کیا حیثیت ہے؟
مجھے ان سوالات کے الجھن سے نکالنے کے لیے شرعی رہنمائی فرمائیں اور شکریہ ادا کرنے کا موقع دیں۔
از: عبد الرحمن، کٹک، اڈیشا
فون نمبر: +918270228858
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب (۱) اگر زید کے وارثین میں صرف ایک لڑکا، سات لڑکیاں اور ایک بیوی ہے؛ تو وراثت کے کل بہتر حصے کیے جائیں گے، ان میں سے نو حصہ بیوی، چودہ حصے بیٹا اور اُنچاس حصے سات بیٹیوں کے ہوں گے، ان میں سے ہر ایک کو سات، سات حصے ملیں گے، اس کا تفصیلی نقشہ مندرجہ ذیل ہے:
مسئلہ۸ت۷۲ المضروب ۹
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بیوی ۱ بیٹا ۷ بیٹی
۱ ۷
۹ ۱۴ ۶۳ ۴۹
(۲) اگر کوئی وارث، دوسرے وارث کا حق مارے؛ تو وہ سخت گنہ گار اور مستحق عذاب نار ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ (النساء:۴، آیت:۲۹) ترجمہ:
حدیث پاک میں ہے: ((مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الأَرْضِ ظُلْمًا، فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ)) (صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی سبع أرضین، ج۴ص۱۰۷، رقم: ۳۱۹۸، ط: دار طوق النجاۃ)
دوسری حدیث شریف میں ہے: ((مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ)) فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ((وَإِنْ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ)) (صحیح مسلم، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین، ج۱ص۱۲۲، رقم: ۲۱۸، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
(۳) زید کی دونوں بیٹیاں زید کے وارثین میں سے ہیں؛ اس لیے اس کا ان کے لیے وصیت کرنا درست نہیں، البتہ اگر زید کے دیگر وارثین، اپنی دو لڑکیوں کے لیے زید کی جانب سے کی گئی، اس وصیت سے راضی ہوں؛ تو اب یہ وصیت درست قرار پائے گی مگر یہ وصیت صرف تہائی مال ہی میں نافذ ہوگی، اس صورت میں میت کی تجہیز و تکفین اور اس کے قرض کی اداے گی کے بعد، پہلے کل مال کا تہائی حصہ ان دونوں لڑکیوں کو دیا جائے گا، اس کے بعد جو مال بچے، ان کو موجودہ تمام وارثین کے درمیان، اوپر دیے گئے نقشہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
فتاوی عالم گیری میں ہے: ’’وَلَا تَجُوزُ الْوَصِيَّةُ لِلْوَارِثِ عِنْدَنَا إلَّا أَنْ يُجِيزَهَا الْوَرَثَةُ، وَلَوْ أَوْصَى لِوَارِثِهِ وَلِأَجْنَبِيٍّ صَحَّ فِي حِصَّةِ الْأَجْنَبِيِّ وَيَتَوَقَّفُ فِي حِصَّةِ الْوَارِثِ عَلَى إجَازَةِ الْوَرَثَةِ إنْ أَجَازُوا جَازَ وَإِنْ لَمْ يُجِيزُوا بَطَلَ وَلَا تُعْتَبَرُ إجَازَتُهُمْ فِي حَيَاةِ الْمُوصِي حَتَّى كَانَ لَهُمْ الرُّجُوعُ بَعْدَ ذَلِكَ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الوصایا، الباب الأول فی تفسیر الوصیۃ، ج۶ص۹۰، ط: دار الفکر، بیروت)
اسی میں ہے: ’’التَّرِكَةُ تَتَعَلَّقُ بِهَا حُقُوقٌ أَرْبَعَةٌ: جِهَازُ الْمَيِّتِ وَدَفْنُهُ وَالدَّيْنُ وَالْوَصِيَّةُ وَالْمِيرَاثُ، فَيُبْدَأُ أَوَّلًا بِجَهَازِهِ وَكَفَنِهِ وَمَا يُحْتَاجُ إلَيْهِ فِي دَفْنِهِ بِالْمَعْرُوفِ……. ثُمَّ بِالدَّيْنِ……….. ثُمَّ تُنَفَّذُ وَصَايَاهُ مِنْ ثُلُثِ مَا يَبْقَى بَعْدَ الْكَفَنِ وَالدَّيْنِ إلَّا أَنْ تُجِيزَ الْوَرَثَةُ أَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ ثُمَّ يُقَسَّمُ الْبَاقِي بَيْنَ الْوَرَثَةِ عَلَى سِهَامِ الْمِيرَاثِ‘‘۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الفرائض، الباب الأول فی تعریفھا و فیما یتعلق بالترکۃ، ج۶ص۴۴۷، ط: دار الفکر، بیروت) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۱؍محرم الحرام ۱۴۴۳ھ
Lorem Ipsum