بھاگ کر شادی کے بعد وطی کرنے، زانی کا ساتھ دینے اور والدین کی لاپرواہی کا حکم۔

سوال (۱) کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین  مسئلہ ذیل میں کہ راشد ابن ارشاد احمد ایک لڑکی کو لے کر بھاگا ۰۹؍۰۲؍۱۸ء کو، اس کے شکم میں اسی سے دو مہینے کا حمل ہے، بھاگنے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے سے شادی کرلی، قرآن و حدیث سے جواب عنایت فرمائیں؟

(۲) کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میںکہ جو شخص ان زانی اور زانیہ کا ساتھ دے اور انہیں بڑھاوا دے، اس کے بارے میں شریعت کا کیا فیصلہ ہے؟

(۳)کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین  اس مسئلہ میں کہ لڑکی کو گھر سے جانے کے بعد بھی اگر باپ نے اپنی بچی کو دوبارہ اپنے گھر لے آیا، اس کے بارے میں شریعت کا کیا فیصلہ ہے؟

المستفتی: محمد (عبد) الرؤوف

گرام نواس، پوسٹ بڑگہن، ضلع گوکھپور، ۱۸؍۰۸؍۱۸ء

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

         الجواب (۱) زنا شریعت اسلامیہ میں سخت حرام ہے، لڑکا اور لڑکی زنا کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے مستحق عذاب نار ہوئے، اگر اسلامی حکومت ہوتی؛ تو لڑکا اور لڑکی کو سو سو کوڑے لگائے جاتے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ﴾ (النور:۲۴، آیت:۲)

مذکور لڑکے مذکورہ لڑکی سے نکاح اور وطی دونوں جائز ہے، مگر لڑکا اور لڑکی کا مرتکب زنا ہونے کی وجہ سے گاؤں والوں کے سامنے توبہ اور ندامت کا اظہار لازم ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:’’(وَ) صَحَّ نِكَاحُ (حُبْلَى مِنْ زِنًى لَا) حُبْلَى (مِنْ غَيْرِهِ) أَيْ الزِّنَى لِثُبُوتِ نَسَبِهِ—– (وَإِنْ حَرُمَ وَطْؤُهَا) وَدَوَاعِيهِ (حَتَّى تَضَعَ)—– لَوْ نَكَحَهَا الزَّانِي حَلَّ لَهُ وَطْؤُهَا اتِّفَاقًا‘‘۔ (ج۴ص۱۴۱، کتاب النکاح، ط: زکریا بکڈپو)

(۲) زانی اور زانیہ کا ساتھ اور ان کو بڑھاوا دینے والے گنہ گار ہیں، ان پر لاز م ہے کہ یہ اپنی حرکت سے باز آئیں اور توبہ کریں۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ:۵، آیت:۲)

(۳) اگر والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے لڑکی زنا کرنے اور بھاگنے پر جری ہوئی؛ تو ان پر بھی توبہ ضروری ہے، اور لڑکی جب تک گاؤں والوں کی عورتوں کے سامنے توبہ نہ کرلے اور ندامت کا اظہار نہ کرے، لڑکی کو اپنے گھر لانے کی اجازت نہیں۔

حدیث پاک میں ہے: ((كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا—–الحدیث)) (صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری و المدن، ج۱ص۱۲۲، رقم: ۸۹۳، ط: دار طوق النجاۃ)

اگر لڑکا اور لڑکی نیز ان کو بڑھاوا دینے والے اور ان کو پناہ دینے والے والدین وغیرہ توبہ کرلیں؛ تو گاؤں والے انہیں اپنے ساتھ کھانے، پینے وغیرہ میں شامل رکھیں اور اگر توبہ نہ کریں؛ تو گاؤں والے ان سب کا سخت سماجی بائیکاٹ کریں اور ان کے ساتھ کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا، سب چھوڑدیں۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ (الأنعام:۶، آیت: ۶۸)  و اللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۶؍ذو الحجۃ ۳۹ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.