بغیر نگ کے انگوٹھی وغیرہ کا حکم۲
۹۲؍۷۸۶
سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میں:
بغیرنگ کی انگوٹھی مرد کے لئے جائز ہے یا نہیں اور اگر نگینہ نہ ہو مگر نگینہ رکھنے کی جگہ بنی ہو تو اس کا کیا حکم ہے،بہار شریعت میں لکھا ہیـــ:ـ ’’انگوٹھی وہی جائز ہے جو مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو یعنی ایک نگینے کی ہو‘‘ کیا اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر ایک نگینہ نہ ہو یا ایک سے زیادہ ہو تو وہ انگوٹھی جائز نہیں، براہ کرم جواب کو فقہ کی مطولات سے مزین کریں۔
المستفتی:محمد سلیم احمد چشتی
متعلم مدرسہ حنفیہ،جون پور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب جس طرح مرد کے لیے نگ والی انگوٹھی جائز ہے اسی طرح اس کے لیے بغیر نگ کی وہ انگوٹھی جو عورتوں کی انگھوٹھی کی ہیئت پر نہ ہو جائز ہے؛ کیوں اصل مقصد نگ سے تزین ہے؛ اسی لیے مرد کو حکم ہے کہ نگ کو ہاتھ کے باطنی حصہ کی جانب کرے تاکہ تزین سے بچ سکے؛ اور نگ نہ ہونے کی صورت میں بدجہ اولی تزین نہ ہوگا؛ لہذا اس کے لیے بغیر نگ کی ایسی انگوٹھی بھی جو عورتوں کی ہیت پر نہ ہو جائز ہے۔
رد المحتار میں ہے: ’’قوله: (یجعله) أي الفص لبطن کفه، بخلاف النسوان لأنه تزین في حقهن‘‘۔ (ج۹ ص ۵۱۹، کتاب الحظر و الإباحۃ)
البتہ مرد کو متعدد نگ والی انگوٹھی پہننا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
رد المحتار میں ہے: ’’إنما یجوز التختم بالفضة لو علی هیئة خاتم الرجال، أما لو له فصان أو أکثر حرم‘‘۔ (ج۹ ص ۵۲۱، کتاب الحظر و الإباحۃ)
بہار شریعت کی پوری عبارت یہ ہے: ’’انگوٹھی وہی جائز ہے جو مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو، یعنی ایک نگینہ کی ہو اور اگر اس میں کئی نگینے ہوں تو اگرچہ وہ چاندی کی ہو مرد کے لیے ناجائز ہے‘‘- (ج۳ ح۱۶، انگوٹھی اور زیور کا بیان، ط: المکتبۃ المدین)
اس عبارت کا مفہوم فقط اتنا ہے کہ مرد کی انگوٹھی عورتوں کی طرح متعدد نگ والی نہ ہوجیسا کی بہار شریعت کی پوری عبارت سے واضح ہے۔ و اللہ أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر، مصر، شعبہ حدیث، ایم؍اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۶؍محرم الحرام ۳۸ھ
Lorem Ipsum