بعض مواقع پر مسجد یا غیر مسجد سے مٹکہ وغیرہ میں پانی لاکر دولھا و دلھن کو نہلانا کیسا ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علماے اہل سنت و مفتیان شرع بعض جگہوں پر شادی بیاہ ختنہ وغیرہ کے موقع پر کلسہ یعنی برتن یا مٹکہ میں، کبھی مسجد کی پانی یا کوئیں یا کسی اور جگہ یا پھر ادھر ادھر، نل سے پانی بھر کر، لاتی ہیں، پھر اس پانی سے دلھن و دولھا کو نہلاتی ہیں، کچھ جگہ کھانا میں بھی ڈالتی ہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں، اس طرح کلسہ کے نام پر مسجد سے پانی لے جانا، یہ سب خرافات کرنا یعنی کلسہ بھر نا کیسا ہے، جائز ہے یا ناجائز؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مع حوالہ و دلیل کے ساتھ جواب تحریر فرماکر، ہمیں شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
المستفتی: محمد سمیر ابن علی احمد
مقام و پوسٹ، سنگہاں چندہ طرب گنج، گونڈہ، یوپی
موبائل نمبر: 7860111221۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب کسی بھی موقع پر مسجد کا پانی، گھر لےجاکر، استعمال کرنا، جائز نہیں؛ لہذا برتن یا مٹکہ وغیرہ میں مسجد سے پانی بھر کر لانا اوراس پانی سے دولھا و دلھن کو نہلانا یا اسے کھانے میں ڈالنا، ناجائز و حرام و گناہ ہے؛ لہذا اس سے احتراز ضروری ہے۔
فتاوی مرکز تربیت افتا میں ہے: ’’جو پانی مسجد کے حوض یا ٹنکی میں جمع کیا گیا ہے، وہ خاص مسجد کی ملک ہے اور اسے مسجد ہی کے مصارف، مثلا وضو وغیرہ میں استعمال کرنے کی اجازت ہے اور اسے اپنے گھر، برتن میں بھر کر، لے جانا اور اپنے استعمال میں لانا، حرام و گناہ ہے کہ یہ مسجد کی ملک پر بے جا دست درازی اور زیادتی ہے……….اور مسجد کا موٹر اپنے لیے چلاکر، پانی بھرنا اور اپنے استعمال میں لانا؛ تو اور زیادہ حرام و گناہ ہے کہ یہ بہت بڑی دھاندلی بھی ہے‘‘۔ (فتاوی مرکز تربیت افتا، باب المسجد، ج۲ص۱۹۰، ط: فقیہ ملت اکیڈمی، اوجھاگنج، بستی)
اور ان مخصوص مواقع پر مسجد کے علاوہ، کوئیں یا کسی دوسری جگہ سے مٹکہ میں پانی لاکر، دولھا و دلھن کو نہلانا یا کھانے میں ڈالنا، اگر عورتیں اسے ضروری سمجھ کر، کرتی ہیں یا اس طور پر کرتی ہوں کہ اگر نہ کریں گے؛تو پریشانی لاحق ہوگی اور تکلیف پہنچےگی؛ تو یہ سب شرعا، ناجائز و گناہ ہے، ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، ان سب خرافات سے باز آنا لازم ہے۔
حدیث شریف میں ہے: أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لاَ عَدْوَى وَلاَ صَفَرَ وَلاَ هَامَةَ)) فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا بَالُ إِبِلِي، تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ، فَيَأْتِي البَعِيرُ الأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا؟ فَقَالَ: ((فَمَنْ أَعْدَى الأَوَّلَ؟)) (صحیح البخاری، کتاب الطب، باب لاصفر و ھو داء یأخذ البطن، ج۷ص۱۲۸، رقم: ۵۷۱۷، ط: دار طوق النجاۃ) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۹؍رجب المرجب ۱۴۴۵ھ
Lorem Ipsum