ایک ہی حدیث کو موضوع و ضعیف کہا گیا ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
السلام علیکم
خیریت؟ حضرت ان دونوں حدیثوں میں کیا فرق ہے، ایک ضعیف ہے اور وہی موضوع؟
عن عبد اللہ بن مسعود: أنا مدينة العلم، وأبو بكر أساسها، وعمر حيطانها، وعثمان سقفها وعلي بابها۔ (السخاوی، ت۹۰۲، المقاصد الحسنۃ، ۱۲۴) ضعیف۔
عن عبد اللہ بن مسعود: أنا مدينة العلم، وأبو بكر أساسها، وعمر حيطانها، وعثمان سقفها وعلي بابها۔ (ابن باز، ت۱۴۱۹، مجموع فتاوی ابن باز) ۲۶؍۲۲۸ موضوع۔
المستفتی: سہیل قادری، امریلی، گجرات
الجواب و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، الحمد للہ، امید ہے کہ آپ بھی بخیر ہوں گے۔
یہ دونوں دو حدیث نہیں بلکہ ایک ہی حدیث ہے؛ کیوں کہ صحابی ایک ہیں اور متن کے الفاظ و معانی میں بھی کوئی فرق نہیں۔
اسی ایک حدیث کے بارے میں امام سخاوی علیہ الرحمۃ و الرضوان نے فرمایا کہ وہ ضعیف ہے۔
المقاصد الحسنۃ میں ہے: ’’وأورد صاحب الفردوس وتبعه ابنه المذكور بلا إسناد عن ابن مسعود رفعه: أنا مدينة العلم، وأبو بكر أساسها، وعمر حيطانها، وعثمان سقفها وعلي بابها، وعن أنس مرفوعا: أنا مدينة العلم، وعلي بابها، ومعاوية حلقتها، وبالجملة فكلها ضعيفة، وألفاظ أكثرها ركيكة، وأحسنها حديث ابن عباس، بل هو حسن‘‘۔ (المقاصد الحسنۃ، امام سخاوی، حرف الھمزۃ، ص ۱۷۰، رقم:۱۸۹ ، ط: دار الکتاب، بیروت)
اور اسی حدیث کے بارے میں ابن باز نے لکھا کہ موضوع ہے۔
حدیث ضعیف کی تعریف: حدیث ضعیف اسے کہتے ہیں جو حدیث حسن کی صفات کی جامع نہ ہو۔ یعنی حدیث حسن ہونے کے لیے اس میں جن صفات کا پایا جانا ضروری ہے، ان میں سے کوئی ایک صفت نہ پائی جائے؛ تو اسے ضعیف کہتے ہیں۔
تدریب الراوی میں ہے: ’’ (النَّوْعُ الثَّالِثُ: الضَّعِيفُ: وَهُوَ مَا لَمْ يَجْمَعْ صِفَةَ الصَّحِيحِ أَوِ الْحَسَنِ) جَمَعَهُمَا تَبَعًا لِابْنِ الصَّلَاحِ.
وَإِنْ قِيلَ: إِنَّ الِاقْتِصَارَ عَلَى الثَّانِي أَوْلَى ; لِأَنَّ مَا لَمْ يَجْمَعْ صِفَةَ الْحَسَنِ فَهُوَ عَنْ صِفَاتِ الصَّحِيحِ أَبْعَدُ‘‘۔ (تدریب الراوی، امام سیوطی، النوع الثالث: الضعیف، ج۱ص۱۹۵، ط: ناشر: دار طیبہ)
حدیث صحیح لذاتہ و حسن لذاتہ کی تعریف:
’’و خبر الآحاد بنقل عدل تام الضبط، متصل السند، غیر معلل و لا شاذ، ھو الصحیح لذاته، فإن خف الضبط فالحسن لذاته‘‘۔ (نخبۃ الفکر، امام ابن حجر عسقلانی)
حدیث موضوع کی تعریف: موضوع حدیث جھوٹی اور گڑھی ہوئی روایت کو کہتے ہیں۔
تدریب الراوی میں ہے: ’’(النَّوْعُ الْحَادِي وَالْعِشْرُونَ: الْمَوْضُوعُ: هُوَ) الْكَذِبُ (الْمُخْتَلَقُ الْمَصْنُوعُ، وَ) هُوَ شَرُّ الضَّعِيفِ) وَأَقْبَحُهُ‘‘۔(تدریب الراوی، امام سیوطی، النوع الحادی و العشرون: الموضوع، ج۱ص۳۲۳)
مگر ترغیب و ترہیب اور فضائل و مناقب کے باب میں حدیث ضعیف بیان کرنا اور اس پر عمل کرنا جائز و درست ہے بلکہ کچھ علما کے نزدیک بعض صورتوں میں احکام کے باب میں بھی عمل کرنا جائز ہے۔ لیکن موضوع حدیث ترغیب و ترہیب اور فضائل و مناقب کے باب میں بھی بیان کرنا جائز نہیں۔
تدریب الراوی میں ہے: ’’(وَتَحْرُمُ رِوَايَتُهُ مَعَ الْعِلْمِ بِهِ) ، أَيْ بِوَضْعِهِ (فِي أَيِّ مَعْنًى كَانَ) سَوَاءٌ الْأَحْكَامُ وَالْقَصَصُ وَالتَّرْغِيبُ وَغَيْرُهَا (إِلَّا مُبَيَّنًا) ، أَيْ مَقْرُونًا بِبَيَانِ وَضْعِهِ، لِحَدِيثِ مُسْلِمٍ: ((مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ))‘‘۔ (تدریب الراوی، امام سیوطی، النوع الحادی و العشرون: الموضوع، ج۱ص۳۲۳)
زیر بحث حدیث کے اندر کوئی علامت ایسی نہیں پائی جاتی، جس کی بنیاد پر اسے موضوع کہا جائے؛ لہذا زیر بحث حدیث موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
علامات وضع: اعلی حضرت امام احمد رضاقادری محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(۱) کوئی حدیث اگر: قرآن عظیم یا سنت متواترہ یا اجماع قطعی یا صریح عقل یا صریح حس یا تاریخ یقینی جو تاویل و تطبیق کا احتمال نہیں رکھتی، ان میں سے کسی ایک کے بھی خلاف ہو تو وہ حدیث موضوع ہو گی (۲) یا حدیث کا معنی قبیح ہو جس کا حضور ﷺ سے صدور ممکن نہیں (۳) یا حدیث ایسے امر پر مشتمل ہو کہ اگر اس کا وقوع ہو تو لوگوں کے درمیان مشہور و معروف ہو جائے مگر پھر بھی ایک روایت کے علاوہ کوئی دوسری روایت موجود نہیں (۵) یا روایت فعل حقیر کی وجہ سے کثیر مدح، یا امر صغیر کی وجہ سے شدید مذمت پر مشتمل ہو جس کا حضور ﷺ کے کلام سے تشابہ نہ ہو (۶) یا حدیث کے الفاظ رکیک و سخیف ہوں کہ طبع سلیم اس کو قبول نہ کرے ، اور راوی اس بات کا مدعی ہو کہ بعینہ یہ حضور ﷺ کے الفاظ ہیں (۷) یا ایسی حدیث جو اہل بیت سے تعلق رکھتی ہے، جس کا ناقل رافضی ہے ،اور وہ حدیث اس رافضی کے علاوہ کسی اور سے مروی نہیں (۸) یا قرائن حالیہ اس پر دا ل ہوں کہ آدمی نے غصہ یا لالچ کی وجہ سے فوری طور پر روایت گڑ ھی ہے (۹) یا یہ روایت استقرائے تام کے بعد کتب اسلامیہ میں نہ پائی جاتی ہو (۱۰) یا یہ کہ واضع خود حدیث وضع کرنے کا اقرار کر لے ۔(۲۶) تقریبا یہی علامات وضع ’دکتور الخشوعی الخشوعی صاحب‘ نے بھی اپنی کتاب ’بحوث فی علوم الحدیث‘ میں ذکر کی ہیں، جو کلیۃ ’اصول الدین‘ کے سنۃثانیۃ میں داخل نصاب ہے۔
مزید تفصیل کے لیے خاتم الحفاظ جلال الدی سیوطی کی کتاب: تدریب الراوی، مجدد دین و ملت کی کتاب: الھاد الکاف فی حکم الضعاف اور میرا مقالہ بنام: حدیث ضعیف محدثین کی نظر میں، ایک تجزیاتی مطالعہ کی طرف رجوع کریں۔
تنبیہ: ابن باز وہابی افکار و نظریات کا متحمل ہے؛ اس لیے اس کی کتابیں اور فتاوی پڑھنے سے پرہیز کریں اور سنی کے فتاوی اور کتابیں پڑھنے کا التزام کریں۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت
اوجھاگنج، بستی، ۱۷؍رجب المرجب ۴۳ھ
Lorem Ipsum