پٹنہ کا پہلا سفر!
اللہ تعالی جن بندوں کو چاہے عزت دے اور جنھیں چاہے، ذلت سے دو چار کرے، اللہ تعالی کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے، مجھے ان بندوں میں شامل کیا ہے، جنھیں وہ گاہے بگاہے اعزازات سے نوازتا ہے، انھیں اعزازات میں سے ایک اعزاز یہ ہے کہ اس نے اپنے نیک بندہ محبی و مکرمی حضرت مولانا مفتی حسان رضا نورانی مصباحی امجدی زید شرفہ، استاد و مفتی دار العلوم عماد یہ، پٹنہ کے وسیلے سے پٹنہ سٹی، بہار کے جلسہ: جشن امام احمد رضا، نون کا چوراہا میں اصلاحی بیان کے لیے حاضری کا شرف حاصل ہوا۔
ٹرین کے ذریعے ١٦/صفر المظفر ١٤٤٥ھ کو تین بجے کے قریب پٹنہ اسٹیشن پر پہنچا، اسٹیشن پر مفتی حسان رضا نورانی زید شرفہ کی طرف سے بھیجے گیے محترم حامد رضا صاحب موجود تھے، سلام و دعا کے بعد ہم گاڑی پر بیٹھ گیے، ابھی گاڑی کچھ دور ہی چلی کہ میرے پاس بعض مسائل کے لیے فون آیا، مین نے جواب دیا؛ تو شاید ڈرائیور جناب محمد ساجد عالم صاحب کو احساس ہوا کہ موقع غنیمت جانتے ہوئے مجھے بھی کچھ سوال کرلینا چاہیے، آپ نے سوال کیا:
اہل حدیث سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں، سینے پر ہاتھ باندھنا کیسا ہے؟
میں نے جوابا کہا: پہلی بات تو یہ کہ اہل حدیث، اہل سنت و جماعت ہیں، غیر مقلد نہیں؛ کیوں کہ اہل سنت ہی حقیقی معنوں میں حدیث پر عمل کرتے ہیں، البتہ یہاں دور حاضر میں اپنے آپ کو اہل حدیث کہنے والے، اہل حدیث تو نہیں مگر غیر مقلد ضرور ہیں، اور ان کا یہ دعوی کہ یہ صرف حدیث پر عمل کرتے ہیں، یہ ان کا دعوی محض ہے، ان کی عوام خود حدیث پر عمل کرنے کے بجائے، اپنے غیر مقلد علما کی تقلید کرتی ہے اور یہ بات جگ ظاہر ہے کہ قرون فاضلہ کے ائمہ کی تقلید کرنا، ان غیر مقلدین کی تقلید کرنے سے بدرجہا بہتر ہے بلکہ ان کی تقلید درست ہی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ نماز کی حالت میں سینے پر ہاتھ رکھنا ثابت ہی نہیں اور اگر ثابت مان بھی لیا جائے؛ تو وہ ضعیف ہے، جو کم از کم غیر مقلدین کے نزدیک قابل عمل نہیں۔ اس مسئلہ سے متعلق غیر مقلدین، عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ سینے پر ہاتھ رکھنا، صحیح بخاری و مسلم سے ثابت ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ان کا یہ دعوی، باطل محض ہے، یہ اپنا دعوی کبھی ثابت نہیں کرسکتے۔
اسی درمیان میں نے تعلیم و تربیت سے متعلق ایک نظریہ پیش کیا اور وہ یہ کہ آج قوم مسلم کے پاس دو طرح کے ادارے کثرت سے ہونے چاہیے، اول: مدرسہ، جس میں دینی تعلیم غالب ہو اور ساتھ میں عصری تعلیم اتنی ہو کہ ایک عالم بھی اگر آئی ایس وغیرہ بنانا چاہے، تو اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ دوم: اسکول، جس میں عصری تعلیم غالب ہو اور ساتھ میں بچوں و بچیوں کے لیے دینی تعلیم اتنی مہیا کرائی جائے کہ پوری زندگی اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت کرنے کے لائق رہیں۔
ابھی گفتگو جاری ہی تھی کہ ہم مسجد نون کا چوراہا، پٹنہ سٹی پہنچ کر مسجد میں داخل ہوئے، وہاں مفتی حسان رضا نورانی صاحب قبلہ کے دونوں صاحبزادے-حفظھما اللہ- موجود تھے، ظہر کا وقت کم ہونے کی وجہ سے میں نے فورا نماز پڑھی، اسی درمیان مفتی صاحب قبلہ تشریف لے آئے، آپ جب مرکز تربیت افتا میں فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کی نگرانی میں پڑھ رہے تھے، اس وقت کی ملاقات کے بعد، آج تیئس و چوبیس سال کے بعد، آپ سے ملاقات ہوئی، خیر و خیریت ملی، پھر میں نے اپنی کچھ کتابیں آپ کو پیش کیں اور میں نے آپ سے بزرگان دین، ادارہ شرعیہ اور آپ کے ادارے کی زیارت کا خیال ظاہر کیا، آپ نے فورا گاڑی کا انتظام کیا اور ہم کچی درگاہ، حضرت مخدوم سید شہاب الدین پیر جگجوت علیہ الرحمۃ اور پکی درگاہ، حضرت آدم چشتی رحمۃ اللہ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے نکل گیے، حاضری کے دوران، محترم حامد رضا صاحب نے بتایا کہ درگاہ کی زمینیں غیر مسلم قبضہ کرتے جارہے ہیں، مگر کوئی بولنے والا نہیں، یہ بہت ہی افسوس ناک پہلو ہے، جسے بھلا پانا مشکل تر ہے۔ حاضری کے بعد، پکی درگاہ میں نماز مغرب ادا کرکے، ہم سیدھا مرکزی دار العلوم عمادیہ اور خانقاہ عمادیہ قلندریہ، منگل تالابک ی زیارت کے لیے نکل گیے، راستے میں مفتی حسان رضا زید شرفہ کا فون آیا کہ رئيس المشائخ حضرت علامہ مولانا الحاج سید شاہ مصباح الحق عمادی حفظہ اللہ سے بھی ان شاء اللہ ملاقات ہوجائے گی، یہ ہمارے لیے بڑی خوشی کی بات تھی، بہر حال کچھ ہی دیر میں ہم ادارے میں پہنچ گیے، جہاں پہلے ہی سے مفتی حسان رضا نورانی صاحب قبلہ وغیرہ ہمارے منتظر تھے۔
پہنچتے ہی سید صاحب قبلہ کو خبر دی گئی، حضرت فورا تشریف لائے، سلام و دعا اور دست بوسی کے بعد گفتگو شروع ہوئی، میں نے اسی درمیان اپنی بعض کتابیں آپ کی بارگاہ میں بطور ہدیہ پیش کیا اور آپ نے بھی شفقت فرماتے ہوئے اپنی کچھ کتابیں بطور ہدیہ مجھے عنایت فرمائیں، گفتگو کے درمیان بات آئی کہ دیوبندی کتابیں بہت رف چھاپتے ہیں؛ میں نے از راہ تفنن عرض کیا کہ اور اہل سنت و جماعت (رننگ کتب کے علاوہ) چھاپتے ہی نہیں! البتہ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کے مجلس برکات کی جانب سے درسی کتب پر کافی حد تک کام ہوا، جو یقینا قابل صد ستائش ہے، پھر آپ نے بتایا کہ بریلی شریف کے کسی مکتبہ سے سبل الرشاد بہت عمدہ کاغذ میں چھپی ہے، میں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا، پھر مفتی حسان رضا نورانی زید علمہ نے بتایا کہ اس ادارہ اور خانقاہ کی پٹنہ اور اس کے ارد گرد علاقے میں بڑی خدمات ہیں، اس کے فارغین شہر کی بہت ساری مساجد کو سنبھالے ہوئے ہیں، یہیں پر مفتی صلاح الدین زید علمہ اور دیگر ذمہ داران سے بھی ملاقات ہوئی، پھر کچھ خورد و نوش کے بعد ہم سب سید صاحب قبلہ سے اجازت لے کر، خانقاہ سے باہر آ گیے، پہلے ہی سے منظم پروگرام کے لحاظ کرتے ہوئے، مفتی حسان رضا نورانی زید شرفہ نے افتا اور درس نظامی کے طلبہ کو ایک جا بیٹھایا، میں نے آپ کے حکم پر طلبہ کو نصیحت کی:
(۱) ہر طالب علم ابھی سے اپنا مقصد زندگی متعین کرے اور اس کے لیے اساتذہ ان کا ساتھ دیں۔ (۲) مطالعہ صرف درسی کتاب تک محدود نہ رہے؛ کیوں کہ درسی کتابیں کنجی ہیں اور ان کی ہم مزاج کتابیں خزانہ، انھیں مطالعہ میں لاکر خزانے کے دہانوں کو کھولنے کی ضرورت ہے (۳) ایک سکنڈ بھی وقت ضائع کرنے سے بچیں۔ (٤) اختلاف کی صورت میں کبھی بھی گالی گلوچ نہ کریں، خاص کر اگر آپسی فروعی مسائل میں اختلاف کی صورت ہو؛ تو اس کا پاس و لحاظ ضور رکھیں اور رد کرنا ضروری ہو؛ تو صرف دلائل و براہین سے رد کریں؛ کیوں کہ اسی صورت میں آپ کی بات سنی جاسکتی ہے، ورنہ سرد خانے میں اسے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وقت کی قلت کی وجہ سے گفتگو ختم کی گئی اور مفتی حسان رضا نورانی زید شرفہ کی ہدایات کے مطابق ہم نے ادارے اور خانقاہ کا مزید معاینہ کیا، ادارہ پٹنہ جیسے شہر میں ہونے کے باوجود کافی وسیع زمین پر واقع ہے، یہاں صفائی و ستھرائی اور نظم و نسق کا کافی اہتمام دکھائی دیا۔ اور ایک خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ ادارہ کافی حد تک خود کفیل ہے، آج اس اہم امر کی طرف اداروں کو توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ پھر کچھ وقت کے بعد ہم لوگ مسجد نون کا چوراہا پہنچ گیے۔ یہاں پر شہنشاہ ترنم حضرت مولانا الحاج سید صدف سعید صاحب قبلہ اور خطیب ہندستان حضرت مولانا قاری نثار احمد، بنگال وغیرہ سے ملاقات ہوئی۔ پھر تھوڑی دیر ملاقات کے بعد، میرے اسٹیج پر جانے کا وقت ہوگیا۔
گیارہ بجے اسٹیج پر پہنچ گیا، گیارہ بجے ہی میرے بیان کا وقت تھا مگر کسی وجہ سے تاخیر ہوئی اور ایک خطاب و نعت شریف کے بعد تقریبا بارہ بجے میرا بیان شروع ہوا، بیان کا موضوع تھا: ‘دینی و عصری تعلیم اور اعلی حضرت’۔ قرآن و حدیث اور اعلی حضرت کے فتاوی کی روشنی میں اس پر گفتگو کی گئی، بعدہ اعلی حضرت کی عملی زندگی اور عقائد اہل سنت کے دفاع پر بھی روشنی ڈالی گئی اور یہ پیغام دیا کہ اعلی حضرت تو یہ تھے:
ملک سخن کے شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گیے ہو، سکے بٹھا دئے ہیں
مگر ہم کیا ہیں:
غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے
مسافرو روش کارواں بدل ڈالو
نہ سمجھو گے؛ تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانو
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
اس لیے آج اعلی حضرت کی تعلیمات کی روشنی میں اہل و سنت و جماعت کے لوگوں کو اپنی اصلاح کرکے، عملی و کرداری زندگی گزارنی ضروری ہے؛ کیوں کہ تمھیں بلند و بالا ہو، اگر تم سچے پکے مؤمن ہو، ورنہ تمھیں بلندی کبھی میسر نہیں ہوسکتی۔
خطاب کے درمیان، مفتی ڈاکٹر امجد رضا امجد زید شرفہ سے اسٹیج پر ہی ملاقات ہوئی اور بیان کے بعد آپ سے اجازت چاہی؛ تو آپ نے ادارہ شرعیہ آنے کی دعوت دی؛ تو میں نے عرض کیا کہ مفتی حسان رضا نورانی زید شرفہ سے بات ہوچکی ہے، ان شاء اللہ میں صبح حاضر ہوتا ہوں۔ اسٹیج سے اترنے کے بعد کھانا کھایا اور مسجد نون کا چوراہا کے حجرہ میں آکر نیند کی آگوش میں چلا گیا۔
صبح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد مزید نو بجے تک نیند پوری کی گئی، اس کے بعد مفتی حسان رضا نورانی زید شرفہ کے گھر، پر تکلف ناشتہ کیا، پھر حضرت نے گاڑی منگائی اور ہم ادارہ شرعیہ کے لیے روانہ ہوئے، پہنچتے ہی گیٹ پر ہمارے استقبال کے لیے ایک عالم دین موجود تھے، ان کے ساتھ ہم اندر داخل ہوئے؛ تو دیکھا کہ مفتی ڈاکٹر امجد رضا امجد زید شرفہ اپنی درسگاہ پر براجمان ہیں، دیکھتے ہی آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا، سلام و دعا کے بعد کچھ پڑھنے لکھنے کی بات ہوئی، میں نے آپ سے راد المھند اور التحقیقات کی تعریب و تحقیق اور قاہرہ، مصر سے اس کی اشاعت کا ذکر کیا؛ تو آپ نے مبارک باد پیش کی اور فرمایا کہ عربی، انگریزی اور ہندی میں ترجمہ اور اردو میں لکھنے کے لیے چند علما کی متعدد ٹیم بنائی جائے اور اعلی حضرت کی مختلف کتابوں کو عربی، انگریزی اور ہندی میں ترجمہ کرایا جائے اور اردو زبان میں جو موضوعات تشنہ لب ہیں، ان پر کام کرایا جائے۔ میں نے عرض کیا کہ بالکل اس طریقہ کار پر کام ہونا ضروری ہے، خاص کر اعلی حضرت کی کتابوں سے متعلق عرض کیا کہ آپ کے مختلف کتب و رسائل کے بجائے، اگر آپ کی فتاوی رضویہ مکمل عربی میں مترجم ہوجائے؛ تو آپ کی ذات کے تعارف کے لیے یہی کافی ہوگا۔ اس کے لیے ایک پانچ علما کی ٹیم تیار کی جائے، میں نے عرض کیا، آپ پیش قدمی فرمائیں، میں اس کے لیے تیار ہوں، آپ کی قیادت میں اگر اس کام کے لیے افراد و فنڈنگ کا انتظام ہوجائے؛ تو ان شاء اللہ یہ بڑا کام تین چار سال میں مکمل ہو سکتا ہے،راقم اور حضرت نے کچھ احباب کا ذکر کیا، نیز آپ نے فنڈنگ کیسے ہوگی، اس پر بھی تھوڑی روشنی ڈالی، اللہ کرے یہ اہم کام جلد از جلد مکمل ہوجائے۔
اس کے بعد ادارہ شرعیہ کے علماے کرام نے دوسرے فلور پر موجود سیمینار ہال اور لائبریری وغیرہ کی زیارت کرائی، جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر نیچے ڈاکٹر صاحب قبلہ کے کمرے میں ناشتہ کے بعد قدیم عمارت دیکھنے کے لیے نکل رہے تھے کہ میری نظر بچوں کے لکھے ہوئے جدارئے پر پڑی، ڈاکٹر صاحب قبلہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ کبھی کبھی جداریے سے پوری دیوار پر ہوجاتی ہے، جو یقینا وہاں کے اساتذہ کی طلبا پر توجہ اور طلبا کی محنت و کاوش کی پورے طور پر غماز ہے۔ پھر ہم گلیوں سے ہوتے ہوئے قائد اہل سنت علیہ الرحمۃ کے قائم کیے ہوئے قدیم ادارہ شرعیہ کی عمارت میں پہنچ گیے، ڈاکٹر صاحب قبلہ نے پہلے ہی سے خبر کردیا تھا، ڈاکٹر صاحب قبلہ کی طرف سے نیچے موجود بعض کمروں کے تعارف کے بعد ہم سیدھے دار الافتاء پہنچے، یہاں مفتی محمد حسن رضا نوری زید شرفہہ اور طالبان علوم نبویہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، آپ نے مجھے رسائل عنایت فرمایا اور ساتھ ہی کچھ فتاوے دکھائے، جو آپ اور طالبان علوم نبویہ کی محنت اور اس کے بہترین نتیجہ پر شاہد عدل ہیں۔ فتاوی اب تک پچیس ضخیم جلدوں پر مشتمل، مسودہ کی شکل میں موجود ہے اور غالبا دو جلدیں شائع بھی ہوچکی ہیں، یہاں تقریبا بائیس تیئیس بچے افتا کی تربیت حاصل کرتے ہیں، اساتذہ و طلبا بڑے با اخلاق و ملنسار ہیں، خیر علامہ علیہ الرحمۃ کی عظیم یادگاروں میں سے ایک عظیم یادگار کو دیکھ کر، بے پناہ خوشی ہوئی۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہم ڈاکٹر امجد رضا امجد زید شرفہ کے ساتھ نیچے آئے اور ادارہ شرعیہ کی جدید عمارت کے پاس آپ کو ڈراپ کرکے، الوداعی سلام و مصافحہ کیا اور جناب محمد ساجد عالم صاحب کے ساتھ دوپہر کے بعد سوا ایک بجے، حاجی پور اسٹیشن کے لیے روانہ ہو گیے۔ پھر جناب محمد ساجد عالم صاحب مجھے چوتھے پلیٹ فارم پر پہنچا کر واپس ہوگیے۔ ہاں ایک بات رہ گئی کہ باگھ ایکسپریس تقریبا ڈھائی گھنٹے لیٹ ہوئی جس کی وجہ سے ادارہ شرعیہ کی زیارت با آسانی ہوگئی، ورنہ شاید محروم ہی رہ جاتا! اس لیے ٹرین سسٹم اس تاخیر کے لیے شکریہ کا مستحق ہے، مگر افسوس کہ بستی شہر پہنچتے پہنچتے پانچ گھنٹے لیٹ ہوگئی!!
اللہ تعالی تمام علماے کرام و طالبان علوم نبویہ، بالخصوص سید صاحب قبلہ، مفتی حسان رضا نورانی، ڈاکٹر امجد رضا امجد اور دیگر علماے پٹنہ حفظھم اللہ کے علم، عمل، رزق، تجارت اور وقت میں خوب برکتیں عطا فرمائے اور سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کما حقہ ادا کرنے کی توفیق سے نوازے اور تمام ادارے، بالخصوص علامہ علیہ الرحمۃ کے قائم کردہ سب ادارے اور سید صاحب قبلہ کے ادارہ کو دن دونی، رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، أمیر ثم آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھا گنج، بستی، ہو پی۔
١٧/صفر المظفر ١٤٤٥ھ


