ایک سفر سہسوان کا!
ایک سفر سہسوان کا!
گیارہویں شریف کے موقع حضرت مولانا مفتی شمشاد حسین مصباحی زید علمہ کی دعوت پر سہسوان, بدایوں شریف کے دار العلوم اہل سنت شاہ امم کے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا.
اس موقع کو غنیمت سمجھا اور ١١/ربیع الآخر جمعہ کی صبح, پہلے بریلی شریف, حضور اعلی حضرت مجدد دین و ملت, حضور حجۃ الاسلام,حضور مفتی اعظم ہند اور حضور تاج الشریعۃ علیہم الرحمۃ وغیرہ کی بارگاہوں میں حاضری کا شرف حاصل کیا. اوراد و وظائف کے بعد مفتی افروز مصباحی زید علمہ سے ملاقات کی, چایے نوشی کے درمیان, اتحاد اہل سنت اور دیگر حالات زمانہ پر تبادلہ خیال کے بعد, مظہر اسلام کے دو طلبا کی مصاحبت میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے قائم کردہ ادارہ مظہر اسلام, پہنچا. عجیب اتفاق ہے کہ اس سے پہلے میں کبھی مظہر اسلام کی زیارت نہ کرسکا تھا. خیر زیارت کے بعد میرے پاس تھوڑا وقت تھا, تو میں نے وہیں پر حضرت مولانا خالد حسین ازہری اور آپ کی اہلیہ کی مترجم کتاب: ‘گلدستہ فقہ’ پر ایک مختصر تقریظ لکھا. یہیں پر مفتی محمد فرقان احسنی امجدی اور مولانا نعمان واحدی مصباحی زید علمہما استاد جامعہ حنفیہ رضویہ, سید پور, بدایوں شریف سے بھی ملاقات ہوئی, آپ دونوں حضرات درگاہ اعلی حضرت پر حاضری دینے آئے تھے, شوشل میڈیا کے ذریعے میرے سفر کا علم ہوا, تو ملنے بھی آگیے اور حضرت مفتی شان عالم مصباحی زید علمہ بانی جامعہ حنفیہ رضویہ, سید پور کے حکم سے مجھے جمعہ سے پہلے اپنے ادارے میں چلنے کے لیے کہا مگر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت کی حاضری سے معذرت کرلیا اور کہا کہ ان شاء اللہ ممکن ہوا, تو بیان کے بعد رات میں حاضری ہوگی. کچھ دیر بعد ہی نعمت غیر مترقبہ کے طور پر نوجوان متحرک عالم دین, حضرت مولانا نوشاد ثقافی صاحب کا ورود مسعود ہوا, آپ مظہر اسلام ہی میں بروقت پڑھارہے ہیں, آپ سے قدیم روابط ہیں مگر میرے ذہن میں یہ بات نہ تھی کہ آپ یہیں تدریسی کام انجام دے رہے ہیں. آپ بڑی محبت سے پیش آئے, انکار کے باوجود ناشتہ اور کھانے کا انتظام کیا اور اپنی ایک عربی تالیف اور ایک عربی مترجم کتاب کی زیارت کرائی, دل بہت خوش ہوا, یقینا آپ کی یہ کاوشیں نوجوان علما کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ باور کراتی ہیں کہ صرف بھارت میں پڑھنے والے, طلبا و علما بھی اس طرح کے اہم کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں, اسی درمیان حالات حاضرہ پر آپ سے بھی کچھ تبادلہ خیال ہوا, پھر کچھ ہی دیر بعد ہم جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے بی بی جی مسجد, جو مظہر اسلام سے بالکل لگی ہوئی ہے, پہنچ گیے.
نماز کے بعد حسب وعدہ محترم و مکرم حضرت مولانا شکیل صاحب قبلہ, استاد مظہر اسلام سے بات ہوئی اور آپ نے کہا کہ ان شاء اللہ تعالی باہری روڈ پر چار بجے ملتے ہیں, آپ چار بجے کے آس پاس آگیے پھر مولانا وسیم صاحب, متعلم منظر اسلام, بریلی شریف تھوڑی دیر میں آگیے اور سہسوان کے لیے ایک ساتھ نکل گیے. راستے میں بعض فقہی مسائل اور حالات حاضرہ کے پیش نظر مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی, کچھ دیر بعد ایک سنی مسجد میں ہم لوگوں نے مغرب کی نماز با جماعت پڑھی, مگر ڈرائیور نے نماز نہیں پڑھی جب کہ وہ مسلمان تھا, میں نے سوچا کہ میں اس بات کا ڈرائیور سے ذکر کرونگا مگر ذہن سے نکل گیا, لیکن جب ہم سہسوان کے قریب تھے تو مجھے یاد آیا اور میں نے فورا کہا کہ: آپ نماز پابندی سے پڑھا کریں اور آپ نے ذکر الہی والی جو ٹون لگا رکھی ہے, وہ بھی آپ کو پابندی کے ساتھ نماز پڑھنے کی دعوت دیتی ہے. یوں بات آتی جاتی رہی اور ہم لوگ سہسوان پہنچ گیے, یہاں پر بڑی الفت و محبت کے ساتھ ہمارا استقبال ہوا.
مفتی شمشاد حسین مصباحی زید علمہ اور آپ کے رفقاے کار, سہسوان میں بڑی محنت و جاں فشانی کے ساتھ, اہل سنت و جماعت کے بچوں و بچیوں کی بہترین, بنیادی تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں ہیں, اس کاوش کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے, آپ اور آپ کے احباب نے بڑی بے سر و سامانی کی حالت میں دار العلوم اہل سنت شاہ امم کی داغ بیل ڈال دی ہے, آپ اور آپ کے رفقا, اس اہم کام کی طرف پیش رفت کرنے پر قابل صد مبارک باد ہیں بلکہ جتنی تعریف کی جائے کم ہے.
سہسوان کے لوگ بڑے ہی محبتی اور ملنسار ہیں, اور ایک خاص بات میں نے یہاں کے لوگوں میں دیکھی جو عام طور سے دوسری جگہوں پر نظر نہیں آتی, وہ یہ کہ یہاں کے نوجوان تو نوجوان, بزرگ لوگ بھی کافی متحرک و فعال ہیں اور عالم کے دست و بازو بن کر, ہر آن ان کی قیادت میں پیش قدمی کے لیے تیار دکھے.
بیان:
مجھ سے پہلے, حضرت مولانا شکیل صاحب قبلہ کی بڑی بہترین اور ناصحانہ تقریر ہوئی, یقینا آج کی قوم کو اسی طرح کے خطیب اور خطاب کی ضرورت ہے, اللہ تعالی حضرت زید عملہ کے عمل و رزق میں خوب برکتیں عطا فرمائے.
آپ کے بعد تقریبا میں نے ایک گھنٹا اس عنوان کے تحت بیان کیا: غوث اعظم کی حیات سے ہمیں کیا سیکھنا چاہیے؟ ہھر اخیر میں کچھ سوال و جواب کے بعد, دعا پر پروگرام اختتام پذیر ہوا.
پھر حسب ارادہ, رات میں تو نہیں مگر فجر کی نماز کے بعد, ناشتہ کرکے, مولانا شکیل صاحب قبلہ اور مولانا وسیم صاحب کے ہم راہ, میں سید پور پہنچ گیا, وہاں مفتی شان عالم مصباحی صاحب, دیگر مؤقر اساتذہ اور طلبا نے نعروں سے ہمارا استقبال کیا, ہم لوگ, خصوصا میں اس پرجوش استقبال کے لائق نہیں تھا مگر مفتی صاحب کی نوازش سے منھ موڑا بھی نہیں جاسکتا تھا. پھر ادارہ کو دیکھتے ہوئے, ہم لگ ادارہ کے آفس میں پہنچے, یہاں کچھ دیر تک مفتی صاحب اور دیگر اساتذہ کے ساتھ, حالات حاضرہ کی رعایت کرتے ہوئے, تعلیم و تعلم کے بارے میں گفتگو ہوئی مگر چوں کہ وقت بہت کم تھا, بریلی شریف سے دوپہر کے وقت, گیارہ چالیس پر ٹرین تھی, اس لیے میں نے مفتی شان عالم صاحب سے کہا کہ ہم جلد نکلنا چاہیں گے, آپ نے فرمایا کہ ناشتہ حاضر ہے, ہم لوگ ناشتہ کے لیے فرسٹ فلور کے ایک کمرے میں گیے, مفتی صاحب نے بہت تھوڑے سے وقت میں بڑا پر تکلف ناشتے کا انتظام کیا تھا.
ناشتہ کے بعد بچوں کو کچھ نصیحت کرنے کا تذکرہ ہوا, مگر وقت کے تنگی کی وجہ سے بڑا مشکل سا لگ رہا تھا, مگر پھر یہ فیصلہ ہوا کہ دو چند منٹ ہی سہی مگر نصیحت ہوجانی چاہیے, پانچ سے سات منٹ کے اندر نصیحت کی گئی, نصیحت کے نکات:
(1) تقوی لازمی اختیار کرنا (2) وقت کی حفاظت (3) ابھی سے مقصد کی تعیین (5) مقصد پانے کے لیے انتھک کوشش (6) اساتذہ کے احکام علی عینی و راسی ہونا (7) ہر ایک کا اپنی ذمہ داری مکمل نبھانا.
یہاں اصل ذمہ دار, مکرمی مفتی صاحب قبلہ سے لے کر اساتذہ, طلبا اور دیگر کار گزار, بڑے مخلص, ملنسار, با ادب با اخلاق ہیں, ایسے کہ اس طرح کی نظیر کم ہی ملتی ہے. اس ادارہ کی عمارت دسیوں کمروں پر مشتمل, بڑی خوب صورت اور دیدہ زیب ہے, محل وقوع بھی عمدہ ہے کہ ہر راہ گیر کو دعوت دید دیتی ہے. مفتی صاحب قبلہ قوم کے تئیں اس سے کئی گنا زیادہ بلند ارادے رکھتے ہیں, آپ کے بلند حوصلے یہی کہ رہے ہیں کہ ان شاء اللہ تعالی ان ارادوں کی تکمیل بھی دنیا دیکھے گی.
بہر حال, نصیحت کے بعد فورا, ہم سب اساتذہ کے ساتھ باہر آئے, ہم سب, مفتی صاحب اور دیگر احباب کو الوداع کہ کر گاڑی میں بیٹھ گیے, اس وقت بھی اساتذہ نے الوداعیۃ نعرے لگائے, منع کرنے کے باوجود بھی نہیں مانے, اللہ تعالی انھیں عزت و وقار بخشے.
آخر کار ہم سید پور سے نکلے, گاڑی فراٹے لیتے ہوئے, تقریبا دو گھنٹے میں بریلی شریف اسٹیشن پر پہنچ گئی, اگر ٹرین وقت پر ہوتی, تو شاید پہنچتے ہی بھاگم بھاگ کا سما ہوتا, مگر اللہ کا شکر ہے کہ ٹرین تقریبا آدھا گھنٹا لیٹ تھی, بہر کیف گاڑی سے اتر کر, مولانا شکیل صاحب قبلہ کو الوداع کہا, آپ بھی ساتھ پلیٹ فارم تک آنا چاہ رہے تھے, مگر میں نے انھیں تکلیف نہ دی, مولانا وسیم صاحب فرسٹ پلیٹ فارم تک آئے, ویٹنگ روم پہنچ کر بات کی گئی, یہ عجیب ویٹنگ روم تھا, جہاں گھنٹے کا تیس روپیہ لیا جاتا ہے, بہر حال تیس روپیے دےکر پرچی لی اور اندر چلا گیا اور پھر مولانا وسیم صاحب الواداع کہ کر رخصت ہوگیے.
میں نے ایک طرف ٹرالی رکھی اور فریش ہونے کے بعد, وضو کیا اور ظہر کی نماز ادا کی, ٹرین کے آنے کا وقت بالکل قریب ہوگیا تھا, کیک اور بسکٹ خرید کر, ٹرین کی طرف متوجہ ہوا, ٹرین سامنے تھی, تھوڑا چلنے کے بعد اپنی بوگی کی سیٹ پر بیٹھ گیا. پھر تقریبا رات کے ساڑھے دس بجے میں اپنے گاؤں اوجھاگنج, پہنچا. ٹرین لگ بھگ ڈھائی گھنٹا لیٹ تھی! جس کی وجہ سے میں ٹرین سسٹم کو کوسے بغیر نہیں رہ سکا! یہ عجیب اتفاق ہے کہ ٹرین کبھی لیٹ ہوتی ہے تو انسان خوش ہوتا ہے اور کبھی تاخیر ہوتی ہے, تو نالاں!!!
نصیحت کی افادیت: سہسوان میں رات کے وقت, ایک بار ڈرائیور صاحب کی ضرورت محسوس ہوئی, مولانا شکیل صاحب قبلہ کے بار بار فون لگانے کے باوجود, فون نہیں اٹھا, تو ہم لوگوں نے کہا کہ اللہ جانے, کیوں فون نہیں اٹھارہے ہیں مگر کچھ ہی دیر بعد جب فون اٹھا, تو پتہ چلا کی ڈرائیور صاحب عشا کی نماز پڑھ رہے ہیں! میرا اپنا نظریہ ہے کہ نصیحت اپنی ذمہ داری اور ہدایت رب کی مرضی, و الحمد لله على ذلك.
اللہ تعالی, مفتی شمشاد القادری مصباحی امجدی زید علمہ اور مفتی شان عالم مصباحی زید علمہ کے مقاصد حسنہ میں کامیابی عطا فرمائے, حاسدین و ماکرین کے حسد و مکر سے محفوظ رکھے اور مزید خلوص کے ساتھ دین و سنیت کی خدمات کرنے کی توفیقات سے نوازے, آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم.
دعا گو و دعا جو:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی۔
١٣/ ربیع الآخر ٤٤ھ
۲۹/اکتوبر ۲۰۲٣ء
نوٹ: مزید دینی و علمی کتابیں، مقالات اور فتاوی پڑھنے کے لیے ٹرسٹ فلاح ملت کی ویب سائیٹ وزٹ کریں👇
https:
