ایک سفر، دار العلوم برکات مصطفی، کچھ کا۔(پہلی قسط)
میرا یہ علمی سفر، محبی و مکرمی حضرت مولانا صدیق حسن ازہری زید علمہ کی دعوت پر ٦/ربیع الآخر ٤٦ھ، بروز جمعرات گیارہ بجے کے قریب شروع ہوتا ہے، جس کے ١٠/ربیع الآخر، دوشنبہ کی شام تک اختتام کو پہنچنے کی امید قوی ہے۔ اس سفر میں بلکہ سفر شروع ہونے سے پہلے ہی، اگرچہ کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر منزل مقصود تک پہنچنے اور ادارے کی خدمات اور اس کا رقبہ دیکھنے کے بعد، یہ پریشانیاں خود بخود ماند پڑ گئیں۔
پریشانیاں کچھ یوں شروع ہوئیں، سفر شروع ہونے سے تقریبا ایک گھنٹہ پہلے اہلیہ کی سخت طبیعت خراب ہوگئی، اجودھیا پہنچا؛ تو جیٹ ائیر ویز کے کینسل ہونے کی خبر ملی اور تعجب ہے کہ نہ تو میرے اور نہ ہی ایجینٹ کے پاس کینسیلیشن کا میسیج آیا! خیر محترم ازہری زید علمہ نے فورا دوسرا ٹکٹ بنوایا، مگر پہلا ٹکٹ ڈائریکٹ احمد آباد کے لیے تھا اور یہ دوسرا ٹکٹ احمد آباد کے لیے، وایا دہلی بنا۔ جب جہاز میں پہنچا؛ تو خوش قسمتی سے حضرت مولانا مفتی اختر حسین علیمی صاحب قبلہ سے ملاقات ہوگئی، خیر و خیریت کے بعد، ہم اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ دہلی پہنچ کر، آپ بنگلور گیٹ کی طرف روانہ ہوگئے اور میں احمد آباد کے گیٹ کی طرف متوجہ ہوگیا۔ مگر گیٹ پر پہنچا؛ تو بورڈنگ پاس اسکین ہی نہیں ہورہا تھا؛ جس کی وجہ سے ایریول و ڈیپارچر، ایک ہی ٹرمنل پر ہونے کے باوجود، مجھے باہر نکلنا پڑا، پھر اوپر سے ائیر پورٹ میں انٹری ہوئی اور یہاں وہاں پوچھ کر، ایک شخص کے پاس پہنچا، جس نے بورڈنگ پاس پر مہر لگائی اور یوں یہ پریشانی سر سے ٹلی۔ پھر دہلی کی فلائٹ نے احمد آباد پہنچنے میں کچھ دیر کردی اور یوں احمد آباد سے بھوج کے لیے جو سلیپر بس تھی، وہ چھوٹنے کے کگار پر تھی، مگر مکرمی ازہری صاحب زید علمہ نے حضرت مولانا عرفان ازہری زید علمہ کو بس اسٹاپ پر بس کے پاس بھیج دیا تھا؛ جن کے سمجھانے کی وجہ سے بس والا کسی طرح، دس منٹ رکا رہا، آنا فانا بس کے پاس پہنچا؛ تو مولانا مصباحی زید علمہ کے ساتھ حضرت مولانا عبد الأمین برکاتی زید علمہ کی بھی زیارت ہوئی۔ سلام و دعا کے بعد فورا، آپ حضرات کے محبت سے بھرے کھانے وغیرہ کے تحفے لے کر، قریب دس بجے رات، بس میں بیٹھ گیا، فجر کے وقت بھوج پہنچا، بھوج میں حضرت ازہری زید علمہ کی گاڑی، حامد ڈرائیور کے ساتھ موجود تھی، قریب ہی ایک مسجد میں فجر کی نماز پڑھنے کے بعد، نلیا کے لیے ہم روانہ ہوگئے اور تقریبا صبح آٹھ بجے ہم دار العلوم برکات مصطفی پہنچ گئے اور جس سفر میں مجھے نلیا، بارہ ایک بجے رات تک پہنچنا تھا، اس میں بعض مشاکل کی بنیاد پر صبح آٹھ بجے کے قریب پہنچا۔ بہر کیف پہنچتے ہی حضرت ازہری صاحب اور دیگر علما سے ملاقات ہوئی، سلام و دعا، چائے پانی اور تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد، میں اپنے کام میں لگ گیا۔
نوٹ: ایک بات جسے میں اپنے اندر بھی پاتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں پریشانیوں سے بچنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں، لیکن اگر پریشانیوں سے سامنا پڑجائے یا پریشانیوں کے بغیر، کار خیر کے لیے، اقدام ممکن نہیں؛ تو میں ان پریشانیوں سے گھبراتا نہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اور آپ سب کو اسی پر قائم و دائم رکھے، آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔
طالب دعا: #ابن فقیہ ملت۔
١٠/ربیع الآخر ٤٦ھ
ایک سفر، دار العلوم برکات مصطفی، کچھ کا۔
(دوسری قسط)
دار العلوم برکات مصطفی میں میرا کام، تخصص فی الفقہ کی طالبات کے لکھے گئے فتاوی کو چیک کرنا تھا، بعض فتاوی دیکھنے کے بعد ہی اندازہ ہوگیا کہ ان طالبات کے فتاوی لکھنے کا انداز، فتاوی کی حیثیت سے اگرچہ کہیں کہیں محل نظر ہے، مگر عموما سبھوں نے فقہی جزئیات، نقل کرنے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور ساتھ ہی ان کے استاد مفتی قمر مصباحی زید علمہ بھی ان کی اس عرق ریزی میں مکمل شریک رہے ہیں، جمعہ کی صبح سے اتوار کے دوپہر تک، تقریبا ساٹھ فتاوی میں نے چیک کیا، اس درمیان فتاوی چیک کرنے کے علاوہ، کچھ اہم کام مزید ہوئے، (۱): جمعہ کی نماز سے پہلے بیان۔ موضوع: تعلیم (دینی و عصری) و تربیت اور مسلم سماج۔ (۲): بروز سنیچر، تقریبا ساڑھے گیارہ بجے، اسکول کے انٹر تک کے بچوں کے درمیان بیان۔ موضوع: مختلف، جیسے صالح نیت/ دینی و عصری تعلیم کی اہمیت/ تعلیم کے گول کی ابھی تعیین/ کد و کاوش/ نظافت وغیرہ (۳) سنیچر کے دن ہی عصر بعد، میں محترم ازہری صاحب کے ساتھ، حضرت مولانا سید بشیر احمد اکبری زید شرفہ سے آپ کے گاؤں کھرسرا، ملاقات کے لیے نکل گیا۔ مغرب بعد ہم حضرت کے پاس پہنچ گئے، سید صاحب قبلہ، بڑے ہی متواضع و منکسر المزاج طبیعت کے مالک ہیں، پر تکلف کھان پان کے ساتھ، سید صاحب قبلہ سے تقریبا دس بجے تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، اس درمیان حضرت مفتی سید احمد شاہ بخاری علیہ الرحمۃ، کچھ کا تذکرہ ہوتا رہا؛ کیوں کہ یوں تو مفتی کچھ صاحب قبلہ کا فیضان پورے کچھ پر ہے، مگر آپ کے فیض کا اثر، سب سے پہلے سید صاحب قبلہ کے گاؤں والوں نے قبول کیا تھا۔ مفتی کچھ صاحب قبلہ کی ویسے تو علمی و دینی تبلیغ سے متعلق بہت ساری باتیں ہیں مگر یہاں میں صرف ایک دو اہم بات اپنے الفاظ میں ذکر کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
پہلی اہم بات: مفتی کچھ علیہ الرحمۃ کے زمانے میں حضرت سید اکبری صاحب قبلہ کے گاؤں اور اطراف میں اس وقت کے امام، میاں جی کہلاتے تھے، جنھیں دو چند صورتیں یاد ہوتیں اور وہ انھیں کے ذریعے امامت جیسی اہم ذمہ داری نبھاتے، میاں جی کی یہ جماعت عموما مسائل وغیرہ سے بالکل نابلد تھی، حتی کہ میاں جی، مسجد میں بیٹھ کر تاش کھیلتے اور نماز کے وقت، نماز پڑھ کر، پھر مسجد ہی میں تاش کھیلنے بیٹھ جاتے! حضرت مفتی کچھ صاحب قبلہ نے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد، سب سے پہلے، حضرت سید اکبری صاحب قبلہ کے گاؤں کی اصلاح کی کوشش فرمائی، مگر میاں جی کی جماعت، اپنے موقف میں بڑی سخت مزاج تھی، لیکن سیدی مفتی کچھ صاحب قبلہ کی ناصحانہ گفتگو اور تبلیغی مزاج کے سبب، سب سے پہلے حضرت سید اکبری صاحب قبلہ کے گاؤں کے امام، میاں جی نے تمام برائیوں سے توبہ کی اور آپ کی راہ نمائی کے مطابق زندگی گزارنے لگے، الحمد للہ، سید اکبری صاحب قبلہ کے گھر ہی، ان امام صاحب سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جن کا نام حاجی محمد ہے۔ خیر پھر دیکھتے ہی دیکھتے، تقریبا پورے گاؤں کے لوگ، چوری چماری اور تاش وغیرہ جیسی گند کو چھوڑکر، مکمل نمازی ہوگئے اور آگے چل کر، پورے کچھ پر مفتی کچھ کا فیضان جاری و ساری ہوا اور آج بھی کچھ میں آپ کے تبلیغی جد و جہد کے نقوش تابندہ و جاوید ہیں۔
دوسری اہم بات: مفتی کچھ علیہ الرحمۃ نے اگرچہ تقریبا ڈھائی سو مساجد، قائم و آباد فرمائے مگر آپ نے کوئی مدرسہ قائم نہیں کیا، لیکن ایسا نہیں کہ آپ کی توجہ مدارس کی طرف نہ رہی، بلکہ ضرور رہی اور وہ اس طور پر کہ آپ نے اپنے مریدوں کو مدرسے کے تعاون کی طرف بھر پور توجہ دلائی، جس کے نتیجے میں تین چار بڑے مدارس، انھیں میں ایک مدرسہ دار العلوم برکات مصطفی ہے، یہ سارے مدارس، آج بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ، گجرات کی دھرتی پر چمکتے و دمکتے نظر آرہے ہیں۔ مجھے آپ کا یہ طریقہ بہت ہی زیادہ پسند آیا؛ کیوں کہ عموما پیران عظام بہت مصروف ہوتے؛جس کی بنیاد پر ان کے لیے مدرسہ یا اسکول قائم کرنا، بہت مشکل ہوتا ہے یا قائم کرلیا؛ تو ان کا حق ادا کرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ لہذا آپ کے اس طریقہ کار سے آج کے ان پیران کرام کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو یا تو مدرسہ و اسکول ہی نہیں کھولیں گے یا کھولیں گے تو نام کا کھولیں گے، لیکن مریدین کو مدارس کے تعاون کی طرف توجہ یا بھر پور توجہ نہیں دلائیں گے۔ ایسے پیران عظام کو چاہیے کہ مفتی کچھ علیہ الرحمۃ کے اس طریقہ کار سے سبق حاصل کریں اور نام کا مدرسہ و اسکول چلانے یا بالکل ان کی طرف توجہ نہ دینے سے باز آئیں اور اپنی پیری مریدی کی پوری ذمہ داری نبھانے کے ساتھ، صحیح نہج پر مدرسہ چلانے والوں کا، اپنے مریدین کے ذریعے، ضرور تعاون کرائیں تاکہ نام کا ہونے یا نام کا بھی نہ ہونے کے بجائے، کام کا ہو اور ان مدارس کے ذریعے، مزید دین و سنیت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جاسکے۔
(٤) بروز اتوار ددوپہر سے پہلے، تقریبا ساڑھے گیارہ بجے میں نے تخصص فی الفقہ کی طالبات کو الأشباہ و النظائر کا ایک درس بھی دیا اور فتاوی لکھنے میں اچھائیوں کے اعتراف کے ساتھ، ان میں جو خامیاں تھیں، ان پر متنبہ بھی کیا اور اخیر میں مکرمی نبیرہ قائد اہل سنت حضرت مولانا محمود غازی ازہری زید علمہ کے حکم کے مطابق یہ بھی نصیحت کیا کہ عورتیں کتنا بھی پڑھ لیں؛ انھیں اپنی گھریلو ذمہ داری کبھی نہیں بھولنی چاہیے اور میاں بیوی کی خوش حال زندگی، محض ایک دوسرے کے تعلق سے شرعی فرائض ادا کرنے پر نہیں گذرتی بلکہ ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کے جذبے کی بنیاد پر رچتی و بستی ہے۔ (٥) اتوار کے ہی دن تقریبا دو بچے دعوت اسلامی کے مبلغین، جو اسی علاقے میں کہیں تبلیغ کے لیے، آئے تھے، وہ حضرت ازہری صاحب اور مجھ سے ملاقات کے لیے بھی آئے، ان حضرات سے بھی تقریبا ایک گھنٹے کے آس پاس، دعوت اسلامی کی کار کردگی اور بعض دیگر امور پر گفتگو ہوئی۔ پھر ان حضرات نے یہ کہ کر رخصت کی اجازت چاہی کہ ابھی تک آپ نے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا ہے؛ تو میری زبان بے ساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ میں کھانے کے لیے پیدا نہیں ہوا ہوں! میرا یہاں اس جملہ سے صرف یہ کہنا مقصود تھا کہ اصل زندگی دین و سنیت کی تبلیغ اور علما کے ساتھ دینی و ملی مجلس ہے، کھانا کبھی کبھی نہ بھی کھایا جائے یا مؤخر کر دیا جائے؛ تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر تعلیم و تبلیغ نہ ہو یا مؤخر ہوجائے؛ تو یہ قابل قبول نہیں۔ اس مجلس کے بعد، اس سے قبل کہ میں اختتام سفر کا ذکر کروں، میں مدرسہ برکات مصطفی اسکول اور دار العلوم فاطمة الزهراء کا دینی و عصری تعلیمی منہج اور اس کے طلبا پر اثرات کے بارے میں تھوڑی گفتگو کرنا بہتر سمجھتا ہوں، تاکہ حضرت ازہری صاحب قبلہ، آپ کے والد ماجد اور دیگر ذمہ داران کی حوصلہ افزائی ہو اور ممکن ہے کہ اس ادارہ کا طریقہ کار جاننے کے بعد، علما کے درمیان، حالات کا لحاظ کرتے ہوئے، مدرسہ و اسکول چلانے کا مزید جذبہ صادقہ بیدار ہو۔
مدرسہ برکات مصطفی (اسکول):
یہ انٹر میڈیٹ اسکول کی شکل میں لڑکوں کا مدرسہ بھی ہے، یہاں اصل تعلیم ماڈرن ایجوکیشن ہے، مگر ساتھ میں اتنی دینی تعلیم و تربیت بھی دی جاتی ہے، جس سے امید واثق ہے کہ بچے پوری زندگی اپنے دین و سنیت سے جڑے رہیں گے اور ساتھ ہی فرائض و واجبات کی ادائیگی سے بھی روگردانی نہیں کریں گے۔ الحمد للہ، بچے پابندی سے پانچویں وقت نماز پڑھتے اور ساتھ ہی نوافل کا بھی التزام کرتے ہیں، میں اس ادارہ میں تین دن و دو رات رہا مگر کسی وقت بھی کسی ایسے لڑکے پر نظر نہیں پڑی جس کی ایک رکعت بھی نماز چھوٹی ہو! تمام لڑکے، فجر بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں، پھر ناشتہ وغیرہ کرکے، صبح سے ظہر تک عصری علوم سے آراستہ ہوتے ہیں، دینی تعلیم کے لیے دو گروپ بنادیا گیا ہے، پہلا گروپ ابتدائی: یہ گروپ غالبا دینی تعلیم، ظہر بعد سے عصر تک حاصل کرتا ہے۔ دوسرا گروپ بعد ابتدائی: یہ گروپ، مغرب بعد سے عشا تک دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوتا ہے۔
دار العلوم فاطمة الزهراء (مدرسہ):
یہ مدرسہ کی شکل میں لڑکیوں کے لیے اسکول بھی ہے، اس میں اصل دینی تعلیم ہے، مگر ساتھ میں عصری تعلیم اتنی دی جاتی ہے کہ اگر انھیں اس کی ضرورت پڑجائے تو با آسانی اس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ میں نے ازہری صاحب کو بچیوں کے بارے میں یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ کم از کم انھیں ہائی اسکول کا امتحان ضرور دلائیں تاکہ یہ دین میں پختگی کے ساتھ، دنیا کے اعتبار سے بھی کچھ لائق ہوجائیں اور حکومت کی نظر میں بھی پڑھی لکھی مانی جائیں۔ و ما توفيقهم إلا بالله۔
دار العلوم برکات مصطفی (مدرسہ): اس میں بچوں کو درس نظامیہ کی تعلیم دی جاتی تھی، مگر بروقت کسی وجہ سے موقوف ہے، ان شاء اللہ اس کی نشأۃ ثانیہ ہوگی، حضرت ازہری صاحب قبلہ اور دیگر ذمہ داران سے گذارش ہے کہ جب بھی اس کی نشأۃ ثانیہ ہو؛ تو اس کی اصل دینی تعلیم کے ساتھ، اس میں انگلش، میتھ اور سائنس بھی پڑھائی جائے اور ساتھ ہی انھیں ہائی اسکول اور ممکن ہو تو انٹر میڈیٹ کا امتحان ضرور دلایا جائے، اگر تعلیم کے ساتھ، تربیت بہترین ہوئی؛ تو ان شاء اللہ اس کے نتائج دینی و عصری، ہر دو اعتبار سے بہت بہتر ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔
طالب دعا: #ابن فقیہ ملت۔
١٠/ربیع الآخر ٤٦ھ
ایک سفر، دار العلوم برکات مصطفی، کچھ کا۔
(تیسری و آخری قسط)
اتوار کے دن، بعد ظہر، دعوت اسلامی کے مبلغین سے ملاقات کے بعد، حضرت ازہری صاحب، میں اور ابراہیم بھائی، سب لوگ ساتھ میں کھانا کھائے، پھر تھوڑی دیر کے لیے میں بستر استراحت پر چلا گیا، اٹھنے کے بعد، عصر کی نماز پڑھا اور چائے نوشی کے بعد ضلع بھوج کے لیے، قبلہ ازہری صاحب اور حامد ڈرائیور کے ساتھ نکل گیا، راستے میں حضرت ازہری صاحب کے بعض محبین کے یہاں، چائے و ناشتہ کرتے ہوئے، ہم نو بجے بھوج پہنچ گیے، یہ ازہری صاحب قبلہ کی محبت تھی کہ وہ بھوج تک مجھے الوداع کہنے آئے، سلیپر بس بالکل ریڈی تھی، میں حضرت ازہری صاحب اور حامد بھائی کو الوداع کہ کر، احمد آباد کے لیے بس میں بیٹھ گیا۔ تقریبا پونے پانچ بجے، احمد آباد پہنچ گیا، سابق ارادے کے مطابق محب گرامی حضرت مولانا عبد الأمین زید علمہ سے بات ہوئی، آپ تھوڑی ہی دیر میں گاڑی لےکر گیتا مندر پہنچ گیے۔
سلام و دعا کے بعد، ہم محدث جلیل حضرت علامہ مولانا سید وجیہ الدین گجراتی علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے پہنچے، فجر کا وقت ہوچکا تھا مگر شاید ابھی درگاہ کی مسجد میں اذان کا وقت نہیں ہوا تھا؛ اس لیے باہر دس پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑا، پھر دروازہ کھلا اور ہم اندر داخل ہوئے، حضرت کا مزار شریف، کافی حد تک وسیع عریض صحن میں واقع ہے، وضوء کرکے ہم لوگوں نے سنت فجر پڑھی، پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ ابھی جماعت میں وقت ہے؛ اس لیے فاتحہ پڑھ لیا جائے، فاتحہ اور نماز پڑھنے کے فورا بعد، ہم درگاہ شاہ عالم علیہ الرحمۃ حاضر ہوگئے، بارگاہ عالی میں حاضری کے بعد، جب درگاہ کے مین گیٹ پر پہنچا؛ تو حضرت مولانا عبد الأمین زید علمہ ویڈیو کال پر مفتی شفیع عالم ساحل اشرفی زید شرفہ، خطیب و امام رجب شاہ مسجد سے بات کر رہے تھے، قریب پہنچا؛ تو معلوم ہوا کہ حضرت مفتی صاحب قبلہ مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، میں نے فورا آپ سے بھی گفتگو کا شرف حاصل کیا، آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا؛ تو میں خود ہی ملاقات کے لیے آجاتا، یہ حضرت کی نوازش اور محبت تھی ورنہ میں اس لائق کہاں؟ بہر کیف آپ سے معذرت کرنے کے ساتھ عرض کیا کہ ان شاء اللہ اگر زندگی رہی تو جلد ہی ملاقات ہوگی۔
ابھی درگاہ کے گیٹ سے باہر ہی نکلا تھا کہ مکرمی مولانا عبد الأمین برکاتی زید علمہ نے دو حضرات، حضرت مولانا سید سمیر باپو زید مجدہ، خطیب و امام مدینہ مسجد اور اُن کے دوست مولانا عمران رضوی زید علمہ، مدرس: مدرسہ فیضان شاہ عالم سے ملاقات کرائی، جو بارگاہ شاہ عالم میں سلامی پیش کرنے آئے تھے، حضرت سید صاحب قبلہ نے میری دست بوسی کی، معا جب مجھے علم ہوا کہ آپ سید زادے ہیں؛ تو میں نے دست بوسی کرنی چاہی مگر آپ نے دست بوسی نہ کرنے دی اور گلے سے لگا لیا۔ خیر سلام و دعا کے بعد، ہم سب گیٹ کے سامنے والی دوکان پر ناشتہ کے لیے گئے، حضرت برکاتی صاحب، ناشتہ کے لیے باہر سے کچھ لینے چلے گئے اور ادھر سید صاحب قبلہ نے چائے وغیرہ کا انتظام کیا، پھر دو چند منٹ میں آپ نے روٹی اور سالن سامنے رکھا، جب کہ آپ باہر بھی نہیں گئے تھے؛ تو میں نے عرض کیا کہ سیدی یہ کہاں سے آگیا؛ تو شاید آپ نے فرمایا کہ رب تعالی چاہے؛ تو کچھ بھی اور کبھی بھی آسکتا ہے! پھر حضرت برکاتی صاحب پوڑی اور میٹھا وغیرہ لے کر آگئے، ناشتہ کے درمیان، دو حضرات مزید آئے، سب نے مل کر ناشتہ کیا، اب میں نے سید صاحب قبلہ اور برکاتی صاحب سے اجازت چاہی، برکاتی صاحب نے اوبر سے ٹیکسی بک کی اور میں سلام و دعا کرکے، احمد آباد ائیرپورٹ کے لیے نکل گیا۔
معذرت: حضرت برکاتی صاحب بار بار کہتے رہے کہ وقت ہوتا؛ تو میں آپ کو اپنے گھر لے جاتا، نیز بعض وہ احباب جن کو میں خبر نہیں کرسکا یا ان کے بلانے کے باوجود، انھیں وقت نہیں دے سکا، میں ان سب سے معذرت خواہ ہوں، ان شاء اللہ اگر قسمت نے ساتھ دیا اور کبھی احمد آباد کی طرف آنا ہوا؛ تو سب کو حتی الامکان، وقت دینے کی کوشش کرونگا۔
الحمد للہ نلیا، بھوج سے واپسی میں گھر تک کوئی خاص پریشانی در پیش نہیں آئی اور میں اپنے گھر، اوجھا گنج، بستی، بعد مغرب، تقریبا چھ بجے سلامتی کے ساتھ پہنچ گیا۔ میرے حق میں دعا کرنے والے تمام محبین، راستے میں اپنی محبت پیش کرکے، میری پریشانی کو کم کرنے والے، تمام حضرات بالخصوص حضرت مولانا عرفان مصباحی، حضرت مولانا عبد الأمین برکاتی، حامد ڈرائیور، ادارہ کے تمام ذمہ داران بالخصوص حضرت ازہری صاحب قبلہ، مفتی قمر صاحب اور ابراہیم بھائی وغیرہ کا دل سے شکر گزار ہوں۔ اللہ تعالی ان سب کے علم، عمل، عمر، رزق اور وقت میں خوب برکتیں عطا فرمائے، تمام آفات و بلیات سے محفوظ رکھے، نیک مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار کرے اور ادارہ کو روز افزوں ترقی عطا فرمائے اور اسے تمام حاسدین کے حسد اور ماکرین کے مکر سے مامون رکھے، آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔
طالب دعا: ابن فقیہ ملت۔
١١/ربیع لآخر ٤٦ھ