ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا۔

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ایک ہیں، جنگ خیبر کے بعد حضور آقاے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ پر اسلام پیش کیا؛ تو آپ نے بخوشی اسلام قبول فرمایا، پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ سے شادی فرمائی۔ آپ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہت محبت فرماتی تھیں، آپ، بڑی پاک باز اور نیک سیرت تھیں، علم و عمل میں بھی بلند و بالا مقام رکھتی تھیں، آپ، اعلی اخلاق و کردار کی مالک تھیں، آپ نے وہی زندگی اپنائی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو پسند تھی، آپ ہمیشہ دین و اسلام کی نشرو اشاعت میں کوشاں رہیں، آپ کی زندگی، ہر قوم بالخصوص قوم مسلم کے لیے قابل اتباع ہے۔ آج کی اس بزم میں آپ ہی کی حیات طیبہ پر مختصر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا، و ما توفیقي إلا باللہ علیه توکلت و إلیه أنیب۔
نام و نسب: صفیہ بنت حُیَی بن اَخطب بن ثعلبۃ بن عبید بن کعب بن الخزرج بن ابی حبیب بن النَضیر من بنی اسرائیل من سبط ہارون بن عمران علیہ السلام۔
آپ کی ماں کا نام: ضَرَّۃ بنت سَمَوْاَل اور آپ کے والد کا نام حیی بن اخطب تھا۔ (جامع الأصول، امام ابن اثیر، ج۱۲ص۱۰۲، ط: مکتبۃ الحلوانی)
صفیہ نام کی وجہ: ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا صفیہ نام اس لیے رکھا گیا؛ کیوں کہ مال غنیمت سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو اپنے لیے چن لیا تھا اور بعض لوگوں نے کہا کہ آپ کا پہلے ہی سے نام صفیہ تھا۔ (غایۃ السول فی خصائص الرسول، امام ابن الملقن، ص۲۴۲، ط: دار البشائر الإسلامیۃ، بیروت)
عادت و اطوار: آپ بڑی حلیم الطبع، عاقلہ اور فاضلہ تھیں۔ (إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، امام تقی الدین مقریزی،ج۶ص۸۸، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

خاندانی پس منظر
ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سردارِ یہود حیی بن اخطب کی لڑکی تھیں، آپ کے والد اور آپ کے چچا ابو یاسر، آپ سے بڑی الفت و محبت کرتے تھے، آپ کے والد حیی بن اخطب اپنے زمانہ میں یہود کے سردار اور ان کے علما میں سے ایک تھے، جنہیں معلوم تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث ہوچکے ہیں، آپ کے چچا ابو یاسر جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی گفتگو سن کر آئے؛ تو انھوں نے اپنی قوم کے پاس آکر بشارت دی اور پوری قوم کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کی طرف بلایا۔ اس کے بعد آپ کے والد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئے، ان کی باتیں سنیں اور جب اپنی قوم کے پاس آئے؛ تو اپنی قوم کے سامنے حضور کی عداوت کا اعلانیہ اظہار کیا، یہاں تک کہ جب آپ کے چچا ابو یاسر بن اخطب نے ان سے کہا: اس امر میں میری اطاعت کرلیں، اس کے بعد جس میں چاہیں میرے خلاف جائیں، آپ ہلاک نہ ہوں گے؛ تو انھوں نے کہا: واللہ میں تمھاری بات کبھی نہیں مانوں گا۔ اس طرح شیطان، آپ کے والد پر غالب رہا جس کی وجہ سے مشرف باسلام نہ ہوئے اور آپ کے والد کی قوم بھی آپ کے والد کے راستے پر چلی۔ ملخصا۔ (دلائل النبوۃ، امام بیہقی، ج۲ص۵۳۲، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

ام المؤمنین کی جانب سے جرات مندانہ اقدام
لیکن جب ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنھا پر اسلام کی حقانیت واضح ہوئی؛ تو آپ نے اپنے والد کا شیطانی راستہ چھوڑکر، اسلام کو قبول کرنے کا جرات مندانہ اقدام کیا مگر آپ کا اسلام کو اپنانا کسی جبر و اکراہ کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اپنی خوشی و رضا سے وجود میں آیا، جنگ میں والد، شوہر اور بہت سارے محبین موت کی آگوش میں اتار دیے گئے، مگر یہ چیزیں آپ کے اسلام اپنانے میں رکاوٹ نہ بن سکیں؛ کیوں کہ اسلام کی روشنی و حقانیت کے سامنے یہ ساری ظاہری تکلیفیں ماند پڑگئیں تھیں۔
مغازی الواقدی میں ہے: ’’خیبر کی جنگ ختم ہونے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے بلایا، میں آکر آپ کے سامنے بیٹھ گئی، آپ نے فرمایا: اگر تم اپنے دین پر برقرار رہنا چاہو؛ تو میں تمھیں اسلام لانے پر مجبور نہیں کروں گا لیکن اگر تم نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرلیا؛ تو یہ تمھارے لیے بہتر ہوگا۔ آپ نے کہا: میں اللہ، اس کے رسول اور اسلام کو اختیار کرتی ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے آزاد کرکے، مجھ سے نکاح کرلیا اور میری آزادی، میری مہر قرار پائی‘‘۔ (مغازی الواقدی، غزوہ خیبر، ج۲ص۶۷۵، ط: دار الأعلمی، بیروت)
اور ایک دوسری روایت میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت صفیہ بنت حیی کو اپنے لیے چن لیا اور ان کو اختیار دیا کہ وہ انھیں آزاد کر دے رہے ہیں، اب وہ چاہیں؛ تو آپ کی زوجہ بن جائیں یا اپنے گھر والوں کے سے جا ملیں؛ تو آپ نے یہ اختیار کیا کہ وہ انھیں آزاد کردیں اور وہ ان کی زوجہ بن کر رہیں گی‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل، رقم: ۱۲۴۰۹، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کی مبارک شادی
ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا، ان خوش قسمت عورتوں میں سے ہیں، جنھیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
السیرۃ النبویۃ میں ہے: ’’اسلام لانے سے پہلے آپ جس کے عقد میں تھیں، وہ دو لوگ تھے، ایک کا نام سلام بن مقسم قرظی اور دوسرے کا نام کنانہ بن ربیع بن ابی حقیق نضیری تھا، سلام بن مقسم نے جب انھیں چھوڑ دیا؛ تو آپ سے کنانہ بن ربیع نے شادی کرلی، جنگ خیبر میں کنانہ بن ربیع مارا گیا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو آزاد کرکے، اپنے عقد میں لے لیا، آپ کا عقد سات ہجری میں ہوا‘‘۔(السیرۃ النبویۃ، امام ابن کثیر، الطبقات الکبری، باب ھجرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم، ج۲ص۲۹۸، ط: دار المعرفۃ، بیروت- الطبقات الکبری، امام ابن سعد، رقم: ۴۱۳۵، ط: دار الککتب العلمیۃ، بیروت- صحیح البخاری، رقم: ۳۷۱، ط: دار طوق النجاۃ- المستدرک علی الصحیحین، امام حاکم، رقم: ۶۷۱۳، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اس طرح آپ کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا، جسے آپ نے برسوں پہلے دیکھا تھا، جس کی خبر موجودہ شوہر کو دینے پر آپ کو سزا ملی، جس کا نشان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقد کے وقت بھی موجود تھا۔
المعجم الکبیر میں ہے: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی دونوں آنکھوں میں ہرا پَن تھا؛ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا: ((یہ تمھاری دونوں آنکھوں میں ہرا پن کیسا ہے)) تو آپ نے عرض کیا: میں نے اپنے شوہر سے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میری گود میں چاند اتر آیا ہے؛ تو انھوں نے مجھے طمانچہ مارا اور کہا: کیا تمھاری مراد یثرِب کا باشاہ ہے؟ آپ کہتی ہیں: رسول اللہ سے زیادہ، کوئی مجھے ناپسند نہیں تھا کہ انھوں نے میرے باپ اور میرے شوہر کو قتل کیا تھا؛ پھر آپ میرے سامنے عذر پیش کرتے رہے اور فرمایا: اے صفیہ! تمھارے والد نے میرے خلاف اہل عرب کو ابھارا اور فلاں فلاں کام کیا، یہاں تک کہ میرے دل سے آپ کی ناپسندیدگی ختم ہوگئی۔ (المعجم الکبیر، امام طبرانی، رقم: ۱۷۷، ط: مکتبہ ابن تیمیہ، قاہرہ)

ام المؤمنین پر حضور کی خاص توجہ و عنایت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا پر خاص توجہ و عنایت رہی اور ہر طرح سے آپ کا خیال رکھا، اس کی چند مثالیں قارئین کے حوالے کی جاتی ہیں:
صحیح البخاری میں ہے: ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا جب سواری پر سوار ہونے کا ارادہ کیا؛ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی ران مبارک آگے کردیا تاکہ وہ اسی پر اپنا قدم رکھ کر، سواری پر سوار ہوجائیں مگر ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہانے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے اپنا قدم، ان کی ران مبارک پر رکھنا گوارا نہیں کیا بلکہ اپنا گھٹنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ران مبارک پر رکھ کر سوار ہوئیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو پردہ میں کرکے پیچھے بیٹھالیا، مقام خیبر سے نکلنے کے بعد جب مقام صہبا پہنچے؛ تو وہیں پر شب زفاف عمل میں آیا۔ آپ کا مہر آپ کی آزادی قرار پائی اور ولیمہ میں کھجور، پنیر اور گھی کھلایا گیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیراب ہوکر کھایا۔ (صحیح البخاری، رقم: ۲۸۹۳، ۳۷۱، ط: دار طوق النجاۃ- الطبقات الکبری، امام ابن سعد، رقم: ۴۱۳۵، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، صحیح مسلم، رقم: ۱۳۶۵، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
مسند احمد بن حنبل میں ہے: ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ازواج مطہرات کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے، راستے میں ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اونٹ بیٹھ گیا؛ اس لیے آپ رونے لگیں، حالاں کہ تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ سواری کرنے والی آپ ہی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس بات کی خبر ملی؛ تو آپ تشریف لائے اور اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسو پونچھنے لگے، مگر ان کا رونا بڑھتا گیا اور آپ انھیں روکتے رہے مگر جب بہت زیادہ رونے لگیں؛ تو آپ نے انھیں منع کیا اور زجر و توبیخ فرماکر، لوگوں کو رکنے کا حکم دیا۔۔۔۔۔ (مسند احمد بن حنبل، رقم: ۲۶۸۶۶، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
المعجم الأوسط میں ہے: ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ اچھے اخلاق والا نہیں پایا۔ آپ نے مجھے مقام خیبر سے اپنی اونٹنی کے پیچھے بیٹھایا، کچھ دیر بعد مجھے نیند آنے لگی؛ جس کی وجہ سے میرا سر کجاوہ کے پچھلے حصے سے لگ رہا تھا؛ تو مجھے اپنے ہاتھ سے چھو کرکے فرمانے لگے: اے عورت سنبھل کر بیٹھ، اے حییّ کی بیٹی ذرا صبر سے کام لے۔ جب آپ مقام صہبا پہنچ گئے؛ تو آپ نے فرمایا: میں نے جو تمہاری قوم کے ساتھ کیا، میں اس کے لیے تم سے معذرت چاہتا ہوں، ان لوگوں نے مجھے ایسا ایسا کہا۔ (المعجم الأوسط، امام طبرانی، رقم: ۶۵۸۰، ط: دار الحرمین، قاہرہ)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا ا س قدر پاس و لحاظ اور عزت افزائی، اپنی مثال آپ ہے، اسی طرح ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم و توقیر اور ان کے حسن اخلاق کا حسن اخلاق سے جوابی کردار، قابل دید و سبق آموز ہے۔

حضور کی جانب سے ام المؤمنین کا دفاع
عورتوں کے درمیان آپسی چپقلش بہت معروف ہے، یہ وہ چپقلش ہے جو عام مسلمان تو عام مسلمان، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے اندرکبھی کبھی نظر آئی؛ اسی بنیاد پر جب ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا پر بعض دیگر امہات المؤمنین نے برتری ظاہر کرنے کی کوشش کی یا تنز کیا؛ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا دفاع فر مایا اور کبھی کبھی بعض ازواج مطہرات پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔
سنن الترمذی میں ہے: ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں سے حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی جانب سے مجھے کچھ بات سننے کو ملی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے پاس آئے؛ تو میں نے آپ سے اس بات کا ذکر کیا؛ تو آپ نے فرمایا: تم نے کیوں نہیں کہا: تم دونوں مجھ سے بہتر کیسے ہوسکتی ہو؟! جب کی میرے شوہر محمد، میرے والد ہارون اور میرے چچا موسی( علیہم الصلاۃ و السلام) ہیں۔ اور جو بات ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا تک پہنچی تھی، وہ یہ کہ ان لوگوں نے کہا تھا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہاں صفیہ بنت حییّ سے زیادہ مکرم ہیں۔ ان لوگوں نے یہ بھی کہا تھا: ہم لوگو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج اور آپ کے چچا کی لڑکیاں ہیں۔ (سنن الترمذی، رقم: ۳۸۹۲، ط: مصطفی البابی الحلبی، مصر)
المعجم الکبیر میں ہے: ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ خبر پہنچی کہ حفصہ نے انھیں کہا: یہودی کی لڑکی؛ جس کی وجہ سے آپ روپڑیں، ابھی آپ رورہی تھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے پاس آئے اور یہ حالت دیکھ کر فرمایا: کیا ہوا؟ آپ نے عرض کیا کہ: مجھے حفصہ نے یہودی کی لڑکی کہا ہے؛ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک تم نبی کی لڑکی ہو، تمھارے چچا نبی ہیں اور تم نبی کی بیوی ہو، پھر وہ کس وجہ سے تم پر فخر کرتی ہے؟! پھر آپ نے فرمایا: اے حفصہ! اللہ تعالی سے ڈرو۔ (المعجم الکبیر، امام طبرانی، رسم: ۱۸۶، ط: مکتبہ ابن تیمیہ، قاہرہ)
مسند احمد بن حنبل میں ہے: ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ حج کرنے جارہے تھے، راستہ میں ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اونٹ بیٹھ گیا؛ تو آپ نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا: زینب تم ایک اونٹ اپنی بہن صفیہ کو عاریت کے طور پر دے دو اور صفیہ تمام ازواج میں سب سے زیادہ سواری کرنے والی تھیں۔ ام المؤمین صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: میں آپ کی یہودیہ کو عاریت پر اونٹ دونگی؟! اس جواب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ناراض ہوئے، ان سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ آپ مکہ شریف آگئے اور ایام منی بھی آپ کے سفر میں آیا بلکہ مدینہ شریف لوٹ آئے اور محرم و صفر بھی آگیا، نہ تو ان سے گفتگو کی اور نہ ہی ان کے پاس گئےاور نہ ہی ان کے لیے باری مقرر کی اور آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے مایوس ہوگئیں، پھر جب ماہ ربیع الاول آیا؛ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے پاس گئے………….۔ (مسند احمد بن حنبل، رقم: ۲۶۸۶۶، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

ام المؤمنین کی حضور اور آپ کی آل سے عقیدت و محبت
ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم سے والہانہ محبت رکھتی تھیں، اسی طرح آپ کی اولاد سے آپ کی چاہت اٹوٹ تھی، ملاحظہ فرمائیں:
المقصد العلی فی زوائد أبی یعلی الموصلی میں ہے: ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اس حال میں پہنچی کہ ان سے زیادہ مجھے کوئی ناپسند نہیں تھا؛ تو انھوں نے فرمایا: بے شک تمھاری قوم نے ایسا ایسا کیا۔ آپ کہتی ہیں: میں ابھی اپنی جگہ سے اٹھی نہیں تھی کہ لوگوں میں ان سے زیادہ کوئی محبوب نہ رہا۔ (المقصد العلی فی زوائد أبی یعلی الموصلی، رقم: ۱۳۸۴، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
الجامع میں ہے: حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس بیماری میں وفات ہوئی، اسی میں آپ کی ازواج مطہرات، آپ کے پاس آئیں؛ تو ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا: خبر دار! اللہ کی قسم مجھے یہ بات پسند ہے کہ جس بیماری سے آپ دو چار ہیں، وہ بیماری مجھے ہوتی؛ تو ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہم نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آنکھوں سے اشارہ کیا، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا: ((تم سب اپنی آنکھوں کو دھو لو)) ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس وجہ سے ہم اپنی آنکھوں کو دھولیں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((اپنی سوتن کو آنکھوں سے اشارہ کرنے کی وجہ سے اپنی آنکھوں کودھو لو، اور اللہ تعالی جانتا ہے کہ صفیہ اپنی بات میں سچی ہے)) (الجامع لابن وہب، رقم: ۵۵۹، ط: دار الوفاء)
نیز اسی جامع میں ہے: حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اس حال میں کہ آپ کے کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں؛ تو آپ نے اسے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور آپ کے ساتھ کی عورتوں کو بطور تحفہ دے دیا۔ (الجامع لابن وہب، رقم: ۶۰۹)

اسلام کی طرف رغبت دلانے کا اہتمام
ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا تمام ذمہ داریوں کے ساتھ دعوت و تبلیغ کی اہم ذمہ داری نبھاتی تھیں اور آپ چاہتی تھیں کہ لوگ اسلام کو اپناکر اپنی دنیا و آخرت بہتر بنائیں، اسی کی ایک کڑی یہ بھی ہے، آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا یہودی بھائی، مشرف بہ اسلام ہوجائے، مگر نعمت توفیق خدا وندی سے ملتی ہے، جو آپ کے یہودی بھائی کو نہ مل سکی۔
سنن سعید بن منصور میں ہے: حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ام المؤمینن حضرت صفیہ بنت حیی نے اپنے حجرہ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایک ہزار میں بیچ دیا، حضرت ام المؤمین رضی اللہ عنہا کا ایک یہودی بھائی تھا؛ آپ نے اس پر اسلام پیش کیا تاکہ اسلام کی نعمت سے سرفراز ہوکر، وارث ہوجائے، مگر ان کے بھائی نے اسلام لانے سے انکار کردیا؛ تو آپ نے ان کے لیے تین سو کی وصیت فرمائی۔ (سنن سعید بن منصور، رقم: ۴۳۷، ط: الدار السلفیۃ، الھند)

مسائل کے لیے آپ کی طرف رجوع
حضرت صہیرہ بن جیفر فرماتی ہیں: ہم حج کرنے کے بعد مدینہ شریف آئے، پھر ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ہمیں آپ کے پاس اہل کوفہ کی کچھ عورتیں ملیں؛ تو ان عورتوں نے ہم سے کہا: اگر تم چاہو؛ تو ہم پوچھیں اور تم لوگ سنو اور اگر چاہو؛ تو تم لوگ پوچھو اور ہم سنیں؛ تو ہم لوگوں نے کہا: تمھیں لوگ پوچھو؛ تو ان لوگوں نے متعدد چیزوں یعنی عورت اور ان کے شوہر، حیض اور گھڑے کی نبیذ کے بارے میں پوچھا؛ تو آپ نے فرمایا: اے اہل عراق! گھڑے کی نبیذ کے بارے میں تم نے ہم سے کثرت سے سوال کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گھڑے کی نبیذ کو حرام فرمایا، تم میں سے کسی کے لیے حرج کی بات نہیں کہ وہ اپنے پھل کو پکاکر، چورا کرلے، پھر اسے چھاننے کے بعد، پینے کے برتن میں رکھ کر، ڈھک دے، جب وہ پینے کے قابل ہوجائے؛ تو خود پیے اور اپنے شوہر کو پلائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم: ۲۳۸۲۱، ط: مکتبۃ الرشد، الریاض)
تعدداد مرویات: آپ نے حلال و حرام وغیرہ احکام سے متعلق کل ایک سو اٹھارہ احادیث روایت فرمائی ہے، یہ مکرر احادیث کی تعداد ہے اور غیر مکرر کے اعتبار سے کل تعدا چھبیس ہے۔ (مرویات السیدۃ صفیۃ بن حیی بن أخطب أم المؤمنین رضی اللہ عنہا فی کتب الحدیث: دراسۃ تحلیلیۃ)
وفات: آپ کی وفات ماہ رمضان، ۵۰ ہجری میں ہوئی اور جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔ (جامع الأصول، امام ابن اثیر، ج۱۲ص۱۰۲، ط: مکتبۃ الحلوانی)

ام المؤمنین کی وفات اللہ تعالی کی نشانی
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے مدینہ شریف میں کچھ آواز سنی؛ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اے عکرمہ! دیکھو یہ کیسی آواز ہے؟ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں: میں دیکھنے کے لیے گیا؛ تو مجھے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت حیی کا انتقال ہوگیا۔ فرماتے ہیں: پھر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس آیا؛ تو میں نے آپ کو سجدے میں پایا حالاں کہ ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ میں نے عرض کیا: سبحان اللہ! آپ سجدے میں ہیں حالاں کہ سورج ابھی تک طلوع نہیں ہوا؟ تو آپ نے فرمایا: اے فلاں شخص! تم اپنی ماں کو کھودو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہیں فرمایا: ((جب تم کوئی نشانی دیکھو؛ تو سجدہ کرو)) تو اس سے بڑی نشانی کیا ہوسکتی ہے کہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن، ہمارے درمیان سے رخصت ہوجائیں اور ہم زندہ رہیں۔ (سنن ابی داود، باب السجود عند الآیات، ج۱ص۳۱۱، رقم: ۱۱۹۷، ط: المکتبۃ العصریۃ، بیروت‒ السنن الکبری، امام بیہقی، باب من استحب الفزع إلی الصلاۃ فرادی عند الظلمۃ و الزلزلۃ و غیرھا من الآیات، ج۷ص۶۲، رقم: ۶۴۵۰، ناشر: مرکز ھجر للبحوث)
یقینا نیک اور اعلی مراتب والوں کا اس دار فانی سے کوچ کرجانا، اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جب ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا، اس دنیا سے کوچ کرگئیں؛ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کے مطابق سر بسجود ہوگئے۔ آج بھی قوم مسلم کو اس بات کا احساس ہونے کے ساتھ، نیک لوگوں کی قدر کرنی چاہیے تاکہ ان کے نقش قدم پر چل کر، اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنانے کے لیے، راہیں ہموار کر سکیں۔ اللہ تعالی پوری قوم مسلم کو ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا صدقہ عطا فرمائے، آپ کے نقش قدم پر چل کر، دنیا و آخرت بہتر سے بہتر بنانے کی توفیق سے نوازے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی ٹرسٹ فلاح ملت، اوجھاگنج، بستی
۱۳؍رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق ۵؍اپریل۲۰۲۳ء
مقیم حال، حاجی عبد الحفیظ بھائی کے گھر، جام نگر، گجرات

Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.