امام کو گالی دینا اور یہ کہنا کہ تم جیسے مولوی مولانا کو زیر ناف کا بال سمجھتا ہوں۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

امید ہے کہ حضرت آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام، اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک گاؤں میں جمعرات ۳؍۱۲؍۲۳ کو دوپہر میں امام صاحب ایک شادی میں شامل ہونے کے لیے گھر جارہے تھے؛ تو راستے میں بکر نے امام صاحب سے شام کو فاتحہ کرنے کے لیے کہا۔ تو امام صاحب نے کہا: ٹھیک ہے اگر شام کو لوٹوں گا؛ تو فاتحہ پڑھ دوں گا، پھر کسی وجہ سے امام صاحب، اس دن نہیں لوٹ پائے؛ تو بکر تین دن کے بعد مدرسہ میں آکر، بغیر دعا سلام کے، کج بحثی کرنے لگا کہ تم کو یہاں کون لایا ہے، تم کس لیے آئے ہو، کیا کر رہے ہو، امام صاحب نے کہا کہ ایسا کیوں پوچھ رہے ہو؛ تو بکر نے کہا کہ تم فاتحہ درود کرنے، گھر پر کیوں نہیں آئے؛ تو امام صاحب نے کہا، اس بارے میں آپ مجھ سے زیادہ بحث نہ کریں؛ تو یہی ٹھیک ہے، جو ذمہ دار ہیں، کمیٹی ممبران ہیں، ان سے پوچھو؛  تو بہتر ہوگا، پھر بکر بلاوجہ فالتو کی باتیں کرنے لگا اور گالی گلوج کرنے لگا اور معاذ اللہ اس نے یہ بھی کہا کہ تم جیسے مولوی، مولانا کو زیر ناف کا بال سمجھتا ہوں اور اس نے دو مہینے کا تنخواہ بھی نہیں دیا تھا، اس پر امام صاحب نے کہا کہ ایک دن فاتحہ نہیں ہوا، اس کے لیے اتنا آگ ببولا ہورہے ہو اور دو ڈھائی مہینے سے تنخواہ نہیں دیے، اس کا کیا؟ بس اتنی سی بات پر بکر نے امام صاحب کے گریبان کو پکڑ لیا اور ڈھکیل کر، کہنے لگا کہ ابھی ماروں گا اور ہاتھ بھی اٹھایا، البتہ اس لڑائی کی آواز گاؤں والوں نے سنا؛ تو کچھ لوگ بچاؤ کے لیے بھی آگے بڑھے اور یہ معاملہ تقریبا پچیس سے تیس لوگوں کے سامنے ہوا، لوگ اس بات کے گواہ بھی ہیں، انھیں سب باتوں کو لےکر، گاؤں کے خطیب و امام صاحب اور گاؤں والے، سخت ناراض ہیں اور کچھ لوگ کہ رہے ہیں کہ بکر پر ایسی کاروائی کی جائے کہ دوبارہ کسی عالم سے ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ کرے اور کچھ کہ رہے ہیں کہ اس کو دینی و دنیوی اعتبار سے بائکاٹ کردیا جائے، مثلا نہ کھانا پیانا، نہ فاتحہ درود، نہ ہی جنازہ پڑھایا جائے، اس پر حضور مفتی صاحب قبلہ آپ کی کیا رائے ہے، براے مہربانی بحوالہ جواب عنایت فرماکر، شکریہ کا موقع فراہم کریں، عین نوازش ہوگی۔

 

المستفتی: اعجاز احمد، فقیرن پوروا، طرب گنج، گونڈہ۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب صورت مسؤلہ میں امام صاحب کا بکر کے یہاں فاتحہ کے لیے کسی وجہ سے نہ پہنچنے کے سبب، بکر کا امام سے کج بحثی کرنا، اس کو گالی گلوج دینا، اس  کا گریبان پکڑنا، اس کو ڈھکیلنا اور مارنے کے لیے ہاتھ اٹھانا، یہ سب سخت ناجائز و حرام، فسق و فجور  اور بہت بڑا گناہ ہے۔

اور بکر کا یہ جملہ: ’’تم جیسے مولوی، مولانا کو زیر ناف کا بال سمجھتا ہوں‘‘۔ بہت سخت ہے، ظاہر تو یہی ہے کہ اس نے آپسی معاملات کی بنیاد پر ایسا کہا ہے اور یہ بھی فسق و فجور اور بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اگر اس نے بلا سبب، رنج کی وجہ سے، امام پر  اپنی بھڑاس نکالی ہے؛ تو اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا﴾ (الأحزاب: ۳۳، آیت: ۵۸)

ترجمہ: اور جوایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کیے ستاتے ہیں، انھوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا۔ (کنز الإیمان)

حدیث پاک میں ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((سِبَابُ المُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ)) (صحیح البخاری،  کتاب الأدب، باب ماینھی من السباب و اللعن، ج۸۱ص۱۵، رقم: ۶۰۴۴، ط: دار طوق النجاۃ)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا، فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔

دوسری حدیث شریف میں ہے: ((مَنْ آذَى مُسْلِمًا فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ)) (المعجم الصغیر، امام طبرانی، ج۱ص۲۸۹، ط: المکتب الإسلامی، بیروت)

ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے کسی مسلم کو ایذا دی، اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ عز وجل کی نافرمانی کی۔

فتاوی تاج الشریعۃ میں ہے: ’’علماے دین پر اعتراض کا حق، جاہل کو نہیں پہنچتا، علما، جاہلوں کے لیے ہادی و رہنما ہیں، نہ کی جاہل، علما کے رہنما، بلکہ جاہل کو لازم ہے کہ  عالم  کا جو فعل اپنی نظر میں خلاف شرع معلوم ہو، اسے مصلحت شرعیہ کے تحت محمول کرے اور زبان طعن دراز کرنا، در کنار، ہرگز بدگمانی نہ کرے‘‘۔ (فتاوی تاج الشریعۃ، کتاب العقائد، ج۱ص۵۱۴، ط: مرکز الدراسات الإسلامیۃ، بریلی شریف)

فتاوی رضویہ میں ہے: ’’اپنے کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے، گالی دیتا، تحقیر کرتا ہے؛ تو سخت فاسق، فاجر ہے اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے؛ تو مریض القلب، خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، امام احمد رضا، کتاب الحظر و الإباحۃ، النصف الأول،  ج۹ص۱۴۰، ط: رضا اکیڈمی، ممبئی)

بکر پر لازم ہے کہ فورا، اپنے ان تمام برے افعال اور بے ہودہ جملوں سے علانیہ توبہ کرے اور امام سے معافی مانگے اور آئندہ اس طرح کی قبیح حرکت نہ کرنے کا عہد کرے، اگر وہ ایسا کرلیتا ہے؛ تو ٹھیک ہے، ورنہ علاقے والے، اس کا سخت سماجی بائکاٹ کرکے، اس کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، بولنا چالنا اور اس کے یہاں شادی  بیاہ وغیرہ میں شرکت کرنا، سب بند کردیں، البتہ اگر اس کا انتقال ہوجائے؛ تو اس کی نماز جنازہ ضرور پڑھیں، ہاں اگر علما پرہیز کریں؛ تو بہتر ہے۔  و اللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ

فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعہ حدیث، ایم اے

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۱۹؍رجب المرجب  ۱۴۴۵ھ

Lorem Ipsum

About Author:

Azhar@Falahemillattrust

STAY CONNECTED:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Copyright © Trust Falahe Millat 2025, All Rights Reserved.