آئندہ سال آنے پر تعطیل کلاں کی تنخواہ کو موقوف رکھنے کا حکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہوں گے
آپ کی بارگاہ میں ایک استفتا پیش کرتا ہوں اور گزارش کرتا ہوں کہ اس کا جواب جتنی جلدی ممکن ہو آپ عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں، عرض مسئلہ ہے کہ:
زید ایک مدرسہ کا بانی و مہتمم ہے، اس نے چند مدرسین اپنے مدرسے میں اجرت پر رکھے ہیں، جب ان مدرسین نے شوال تا شعبان اس مدرسے میں درس دیا تو وہ مدرسین تعطیل کلاں کی تنخواہ کے حق دار ہیں جیسا کہ مفتیان کرام کے فتاوی سے واضح ہے۔
لیکن زید نے ایک معاہدہ کی شکل میں کچھ قوانین و ضوابط اپنے موافق بنا رکھا ہے جن میں چند یہ ہیں:
(۱)تعطیل کلاں (کی) تنخواہ اسی مدرس کو دی جائے گی جسے آئندہ سال رکھا جائے گا۔
(۲) اگر رمضان کے اخیر تک مدرسہ کے اراکین نے اسے (مدرس کو) جواب نہ دیا ہواور شوال میں آنے سے منع کردیں اب بھی تعطیل کلاں (کی تنخواہ) دی جائے گی۔
(۳) تعطیل کلاں (کی تنخواہ) شوال میں واپس مدرسہ آنے پر ہی تنخواہ دی جائے گی، اس سے پہلے نہیں۔
عرض ہے کہ کیا وہ مدرس جس کو آئندہ سال نہ رکھا جائے وہ تنخواہ کا حق دار ہے یا نہیں، کیا مدرسہ کے اراکین تعطیل کلاں کی تنخواہ ادا کیے بغیر شعبان میں کسی مدرس کو منع کرسکتے ہیں اور تعطیل کلاں کی تنخواہ روک سکتے ہیں؟ کیا وہ مدرس تعطیل کلاں کی تنخواہ کا شوال میں واپس مدرسہ آنے پر ہی حق دار ہوگا یا نہیں؟
المستفتی: محمد وسیم قادری
۲۱؍شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ الموافق ۱۶؍اپریل ۲۰۲۰ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب مدرس کو تینوں صورتوں میں تعطیل کلاں کی تنخواہ ملے گی؛ کیوں کہ زید کا یہ کہنا درست ہی نہیں کہ جسے آئندہ سال رکھا جائے گا یا جو آئندہ سال شوال میں واپس آئے گا یا جسے رمضان کے اخیر تک جواب نہ دیا گیا، اسے تعطیل کلاں کہ تنخواہ ملے گی ورنہ نہیں؛ کیوں کہ جس سال مدرس پڑھاتا ہے اسی سال میں تعطیل کلاں کا شمار ہوتا ہے؛ اس لیے اس کی اس تعطیل کلاں کی تنخواہ آئندہ آنے اور نہ آنے پر موقوف نہیں ہوگی؛ لہذا مدرس ان تینوں صورتوں میں عرفا و شرعا تعطیل کلاں کی تنخواہ کا مستحق ہوگا۔
البتہ زید کو مدرس کی تقرری کے وقت کچھ اس طرح کی وضاحت کردینی چاہیے کہ جس سے نزاع نہ ہو، مثلا اس ادارہ میں اس شرط کے ساتھ تقرری منظور ہے کہ تعطیل کلاں کی تنخواہ نہیں دی جائے گی یا مدرس کہے کہ اس ادارہ میں میری تقرری اس شرط کے ساتھ منظور ہے کہ مجھے تعطیل کلاں کی تنخواہ دی جائے، اب جس اعتبار سے آپسی رضا ہوجائے، اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا، اس کے خلاف نہیں۔
اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’ایام تعطیل کی تنخواہ بحالت ملازمت ملتی ہے، شرعا عرفا یہی قاعدہ ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، مجدد دین ملت، کتاب الإجارۃ، ج۱۴، ص۲۴۷، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
الأشباہ و النظائر میں ہے: ’’الْبَطَالَةُ فِي الْمَدَارِسِ، كَأَيَّامِ الْأَعْيَادِ وَيَوْمِ عَاشُورَاءَ، وَشَهْرِ رَمَضَانَ فِي دَرْسِ الْفِقْهِ لَمْ أَرَهَا صَرِيحَةً فِي كَلَامِهِمْ.
وَالْمَسْأَلَةُ عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً لَمْ يَسْقُطْ مِنْ الْمَعْلُومِ شَيْءٌ، وَإِلَّا فَيَنْبَغِي أَنْ يَلْحَقَ بِبَطَالَةِ الْقَاضِي، وَقَدْ اخْتَلَفُوا فِي أَخْذِ الْقَاضِي مَا رُتِّبَ لَهُ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ بَطَالَتِهِ، فَقَالَ فِي الْمُحِيطِ: إنَّهُ يَأْخُذُ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ؛ لِأَنَّهُ يَسْتَرِيحُ لِلْيَوْمِ الثَّانِي وَقِيلَ: لَا يَأْخُذُ (انْتَهَى) وَفِي الْمُنْيَةِ: الْقَاضِي يَسْتَحِقُّ الْكِفَايَةَ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ فِي الْأَصَحِّ، وَاخْتَارَهُ فِي مَنْظُومَةِ ابْنِ وَهْبَانَ، وَقَالَ: إنَّهُ الْأَظْهَرُ‘‘۔ (الأشباہ و النظائر، امام ابن نجیم، الفن الأول، القائدۃ السادسۃ، ص۸۱، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت) و اللہ أعلمــــــــــــــــــــــــــ
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱؍ ربیع الأول ۱۴۴۲ھ
Lorem Ipsum